لاہور (جدوجہد رپورٹ) گزشتہ 12 ماہ کے دوران پاکستان کے اندرونی قرضوں میں 25 فیصد، جبکہ بیرونی قرضوں میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مرکزی حکومت کا قرض جنوری میں 4 ہزار ارب روپے کے اضافے کے بعد 55 ہزار ارب روپے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یہ ایک ماہ کے اندر قرض میں 7.7 فیصد اضافہ ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق جنوری 2022ء میں مرکزی حکومت کا قرض 42.39 ہزار ارب روپے تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سال کے مقابلے میں قرض میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جنوری کے آخر تک ڈومیسٹک قرض بڑھ کر 34.3 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا، جو ایک ماہ قبل کے مقابلے میں 3.4 فیصد زیادہ ہے اور ایک سال پہلے کے اعداد و شمار سے تقریباً 25 فیصد زیادہ ہے۔
بیرونی قرضہ ایک ماہ میں 15.7 فیصد اور ایک سال میں 38 فیصد اضافے کے بعد 20.69 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 7 مہینوں کے دوران مرکزی حکومت کے ڈومیسٹک قرضوں میں 3.218 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جو کہ 10.4 فیصد کا اضافہ ہے۔
طویل المدتی بانڈز کے ذریعے حکومتی قرضے جنوری کے آخر تک 20.9 ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے، جو ایک سال پہلے 15.59 ہزار ارب روپے تھے، ان میں 34 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاکستان کا انٹرسٹ ٹو ریونیو تناسب 42 فیصد پر ہے اور اس خطے میں سری لنکا کے بعد سب سے خراب ہے، رواں سال جون کے آخر تک 54 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ شرح سود کی ادائیگی 4 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 5.4 ہزار ارب روپے ہو جائیگی۔
اسٹیٹ بینک کی پالیسی شرح سود میں حالیہ اضافہ ڈویلپمنٹ اور دیگر بنیادی ضروریات پر خرچ کرنے کی حکومت کی صلاحیت کو بھی متاثر کرے گا۔ مرکزی حکومت کے بیرونی قرضوں میں جنوری 2023ء کے دوران زیادہ جارحانہ اضافہ ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران جنوری تک بیرونی قرضوں میں 23.5 فیصد یا 3.939 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اگلے مہینے میں مزید نمایاں اضافہ ہو گا۔
حکومت نے گزشتہ ماہ زرمبادلہ کی شرح کو غیر محدود کیا، جس کے بعد ڈالر کی قیمت میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے اس اضافی رقم کا بندوبست کرنا پڑے گا۔
اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کے مجموعی قرضوں میں جنوری کے دوران 15 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔