خبریں/تبصرے

بھارتی پنجاب: جی 20 اجلاس کے دوران 150 مقامات پر کسانوں کا احتجاج

لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں ہونے والے جی 20 ملکوں کے اجلاس کے موقع پر متعدد کسان تنظیموں نے احتجاج کیا ہے۔ کسان تنظیموں نے جی 20 گروپ پر سامراجیت کے فروغ کا الزام عائد کیا ہے۔

عام آدمی پارٹی کی حکومت کی جانب سے کسی بھی احتجاج کی اجازت نہ دینے کے اعلان کے باوجود کسانوں نے یہ احتجاج منعقد کے ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے مطابق کسانوں کی ایک تنظیم کسان مزدور سنگھرش کمیشی (کے ایم ایس سی) نے منگل کو پنجاب کے 16 اضلاع کے 150 مقامات پر احتجاج کیا اور حکومت کے علامتی پتلے نذرِ آتش کئے۔

اس کے علاوہ بھارتیہ کسان یونین اگراہن، پنجاب کھیت مزدور یونین، آل انڈیا کسان سبھا اور نوجوان بھارت سبھا نے بھی مزید احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ دنیا کے طاقتور ملکوں اور ترقی پذیر معیشتوں کے گروپ جی 20 کا تعلیم سے متعلق ورکنگ گروپ کا اجلاس 15 سے 17 مارچ تک امرتسر میں منعقد ہوا۔ اس کے علاوہ 19 اور 20 مارچ کو لیبر 20 (ایل 20) کا اجلاس بھی امرتسر میں ہی ہونے جا رہا ہے۔

جمعرات کو امرتسر سے 12 کلومیٹر دور دابورجی کے مقام پر ہونے والے احتجاج کی قیادت بھارتیہ کسان یونین (ایکتا اگراہن) اور پنجاب لوک مورچہ (پی ایل ایم) نے کی۔ اس موقع پر مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ڈبلیو ٹی او سے باہر آنے، سامراجیت سے معاہدے منسوخ کرنے اور ملک کے وسائل کو کارپوریٹ کے حوالے کرنے کو ختم کرنے جیسے نعرے درج تھے۔

بھارتیہ کسان یونین کے صدر جوگندر سنگھ اگراہن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اداروں کی پالیسیاں کسانوں اور عام انسانوں کے مفادات کے منافی ہیں۔ ان کے مطابق ہم جی 20 کے اجلاس کے موقع پر اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کہ جی سیون کے 7 ملکوں نے جو پالیسیاں وضع کی ہیں وہ ہمارے حق میں نہیں ہیں۔ چاہے یہ پالیسیاں بجلی، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے متعلق ہوں یا زرعی شعبے سے متعلق، یہ ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جی سیون ممالک اپنے مفادات کے لیے ترقی پذیر 13 ممالک کو لالچ دے رہے ہیں۔ ادھر لوک مورچہ پنجاب کے سیکریٹری جگمیل سنگھ کا کہنا تھا کہ جی 20، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) سامراجیت کو فروغ دے رہے ہیں۔

ان کے بقول ہم جی 20 کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ ڈبلیو ٹی او اور آئی ایم ایف جیسی سامراجیت پسند تنظیموں کا حصہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دوسرے ممالک میں بھی جی 20 اجلاسوں کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ڈبلیو ٹی او سے باہر آجائے اور سامراجیت کو فروغ دینے والی پالیسیاں واپس لے۔

یاد رہے کہ اجلاس سے قبل جب کسان تنظیموں نے احتجاج کا اعلان کیا تو ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ اجلاس کی جگہ تبدیل کی جا رہی ہے اور اب یہ امرتسر کے بجائے دہلی میں ہو گا۔ رپورٹس میں بیرونِ ملک سے سرگرم جرائم پیشہ افراد اور خالصتان نواز تنظیموں کے خطرات کی بھی بات کی گئی تھی۔

ان خدشات کے بعد پنجاب پولیس نے تلاشی مہم شروع کی اور بیرون ملک سے سرگرم جرائم پیشہ افراد اور ان سے رابطے میں رہنے والوں کے ٹھکانوں اور تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔ دوسری جانب احتجاج میں شریک تنظیم آل انڈیا کسان سبھا کا کہنا ہے کہ جی 20 کے اندر بھارت کے کسانوں کی تباہی کا راستہ کھولا گیا ہے اور وہ آگے بھی اس کے خلاف احتجاج کرے گی۔

آل انڈیا کسان سبھا کے نیشنل جنرل سیکرٹری اتل کما رانجان کا کہنا ہے کہ پہلے ڈبلیو ٹی او میں بھارت شامل ہوا، پھر آزاد تجارت معاہدے ہونے لگے اور اب جی 20 کے ذریعے کسانوں کو نقصان پہنچانے کا راستہ تلاش کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں زرعی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنی اجناس کو دوسرے ملکوں کو برآمد کریں۔ تاہم حکومت بھارت کو آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ، جارجیا اور یوکرین گندم کو ڈمپ کرنے کا اڈہ بنا رہی ہے۔

ان کے بقول ترقی یافتہ ممالک اپنے یہاں آرگینک فارمنگ کرنا چاہتے ہیں اور اپنا فضلا ترقی کے نام پر بھارت میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جی 20 کے ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ملکوں میں کاربن گیسز کا اخراج روکنے کی کوشش کریں کیوں کہ اس سے ماحولیات کا توازن بگڑ رہا ہے اور بھارت میں زرعی پیداوار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

اتل کما رانجان ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں فروری میں گرمی میں دو فی صد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے فصلیں سوکھنے لگیں۔ اسی طرح زیادہ ٹھنڈ پڑنے سے بھی فصلیں خراب ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ فروری اور مارچ میں بھارت میں غیرمتوقع طور پر گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے زراعت پر برا اثر پڑا ہے۔ کسان اس صورتِ حال سے پریشان ہیں۔

اتل کمار انجان نے کہا کہ کسان تنظیموں کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے 14 ماہ قبل کسانوں کے احتجاج کو ختم کرانے کے لیے کیے گئے تحریری معاہدے پر بھی عمل کیا جائے۔ ان کے بقول حکومت نے کہا تھا کہ ہم ایک ماہ کے اندر زرعی پیداوار کی ’کم سے کم قیمت‘ یعنی ایم ایس پی کی گارنٹی دیں گے۔ حکومت نے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن جو 29 رکنی کمیٹی بنائی گئی اس میں کسانوں کے صرف تین نمائندے ہیں باقی سب سرکاری لوگ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ زراعت پر لاگت بڑھ رہی ہے مگر زرعی اشیا کی قیمتیں گھٹ رہی ہیں۔ اس وقت پیاز کی قیمت تقریباً دو روپے کلو ہے جس سے کسانوں کی لاگت بھی نہیں نکل رہی ہے۔ واضح رہے کہ کسان تنظیموں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے منگل سے مہاراسٹرا کے ناسک سے لے کر ممبئی تک لانگ مارچ شروع کر رکھا ہے۔ اس کی قیادت آل انڈیا کسان سبھا کر رہی ہے۔ 2018ء کے بعد سے اپنی نوعیت کا یہ تیسرا لانگ مارچ ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پیاز پیدا کرنے والے کسانوں کی مدد کرے گی تاکہ بازار میں قیمتوں کے گرنے کا اثر آنے والے سیزن میں پیاز کی پیداوار پر نہ پڑے۔ بھارت کے محکمہ امور برائے صارفین میں اقتصادی مشیر کام کھین تنگ گیتے نے آل انڈیا ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے محکمے نے مہاراشٹرا اور گجرات سے 12 ہزار میٹرک ٹن پیاز حاصل کیا ہے اور اس کی قیمت 12 کروڑ روپے ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts