دنیا

انڈیا نے انٹرنیٹ سنسرشپ کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا!

قیصر عباس

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے عالمی سطح پر ابلاغ کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا صحافیوں کو خبروں کا مواد فراہم کرتے ہیں وہیں انہیں عام لوگوں تک خبریں پہنچانے کا سستا اور فوری ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔

لیکن یہی ٹیکنالوجی آمروں، مقبول سیاسی لیڈروں اور لبرل حکومتوں کے لئے ایک نیا چیلنج بھی ہے جس کی روک تھا م کے نت نئے طریقے ڈھونڈ ے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں انٹر نیٹ پرجزوی پابندیاں عائد کر رہی ہیں، انہیں مکمل طور پر بند کر رہی ہیں یا سوشل میڈیا کی لوگوں تک رسائی ناممکن بنانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔

ڈیجیٹل سنسرشپ کے نئے رجحانات پرایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انڈیا گزشتہ پانچ سالوں میں انٹرنیٹ معطل کرنے والے ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے اور صرف پچھلے سال وہاں 84 مرتبہ انٹرنیٹ کا سلسلہ منقطع کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق یوکرین 22، ایران 18 اورمیانمار 7 مرتبہ کے ساتھ دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہے۔ ان کے علاوہ لیبیا، سوڈان اور ترکمانستان ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں چار مرتبہ انٹرنیٹ معطل کیا گیا۔

جنوبی ایشیا میں ڈیجیٹل سنسرشپ کے لئے بنگلہ دیش میں 6 مرتبہ، افغانستان میں 2 اور پاکستان اور سری لنکا میں ایک بار انٹرنیٹ کے رابطے معطل کیے گئے۔

مجموعی طور پر 2022ء میں دنیا کے 35 ملکوں نے 187 مرتبہ انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کرکے عام لوگوں تک اطلاعات کی رسائی کوکنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔

جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اظہار رائے پر قدغنیں دنیاکے ہر حصے میں لگائی جارہی ہیں۔ یہ پابندیاں انتخابات، سماجی مظاہروں، سیاسی ہنگاموں، اسکولوں کے امتحانات، حکومتی نمائندوں کے دوروں یا مذہبی تقاریب کے دوران عائد کی جاتی ہیں۔

اوپن ٹیکنالوجی فنڈ کے نیٹ کریچن (Nat Krechun) کا کہناہے کہ عام طور پر حکومتیں تین طریقوں سے ڈیجیٹل سنسر شپ عائد کرتی ہیں۔ پہلی صورت میں سوشل میڈیا پر تکنیکی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں تک خبروں کی رسائی کو روکا جا سکے۔ اکثر ملکوں میں کبھی سکیورٹی کے لئے اور کبھی مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے موبائیل فون نیٹ ورک منجمد کیا جاتا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

سنسر شپ کی دوسری صورت میں قانونی پابندیوں کے ذریعے خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ صحافی خود اختیاری سنسرشپ (Self Censorship) کے ذریعے حکومت پر تنقید سے باز رہیں۔ کچھ ملکوں میں نا پسندیدہ و یب سائٹ کو غیر قانونی قراردے کران لوگوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے جواسے استعمال کرتے ہیں۔

تیسری حکمت عملی کے تحت انٹر نیٹ پرمخالفانہ مواد کی بھرمار کر دی جاتی ہے۔ فیک نیوزجیسے حربوں اور ’Counter Messaging‘ کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے جو سنسر شپ ہی کی دوسری شکل ہے۔

ان رجحانات پر نظر رکھنے والی ایک غیر سر کاری تنظیم ’Access Now‘ کی قانونی مشیر نتالیہ کراپاوہ ’Natalia Krapiva‘ کے مطابق حکومتیں نہ صرف انٹرنیٹ منجمد کرتی ہیں بلکہ فیس بک اور ٹوئیٹر جیسے دوسر ے سوشل میڈیابندکرنے کے حربے بھی استعمال کرتی ہیں۔

نیشنل پریس کلب واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے ایک ورچوئل مذاکرے میں ان کا کہنا تھا کہ کشمیر اور دوسرے علاقوں میں اقلیتوں کی زبان بند رکھنے اور انسانی حقوق کی پامالی کے لئے بھی سوشل میڈیا پربڑے پیمانے پر پاندیا ں لگائی جاتی ہیں۔

لیکن سنسر شپ کے ان حربوں کو روکنے کے تکنیکی طریقہ کار بھی سامنے آ رہے ہیں جنہیں استعمال کر کے صحافی ا ن پابندیوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ فلٹرنگ اور تھروٹلینگ(Filtering and Throttling) کے ذریعے سنسر شپ پر قابو پانا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔

دنیا میں ڈیجیٹل سنسرشپ کے خلاف آوازیں ان رجحانات پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن مغربی ممالک، جن کی اس ٹیکنالوجی پر اجارہ داری ہے، اسے اپنے سیاسی اور تجارتی مقاصد کے فروغ کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔