فاروق طارق
پاکستان اس وقت بدترین معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ سیاسی بحران کا سب سے بہتر اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ تقریباً نصف قومی اسمبلی کے ارکان مستعفی ہو چکے ہیں، جبکہ چار میں سے دو صوبائی اسمبلیوں کو انتخابات سے ایک سال قبل تحلیل کر دیا گیا تھا،جن کی مدت رواں ماہ اکتوبر میں پوری ہونا تھی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہوئے یہ امید رکھی تھی کہ وہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کو قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کر دینگے۔
تاہم اب ان دونوں صوبوں میں نگراں حکومتوں نے اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ تاخیر آئین پاکستان کے منافی ہے۔بظاہر انتخابات میں تاخیر کا بہانہ فنڈز کی کمی ہے، لیکن ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ تاخیر فوج کی طرف سے ہیرا پھیری ہے۔ فوج کو انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کا خدشہ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 2018ء میں فوج پر عمران خان کی جیت کے لیے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا تھا۔
عدالتی سطح پر بڑی سیاسی چال چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمران خان کے حامی ہیں۔ اس کا اظہار کئی سیاسی مقدمات میں ججوں کے جاری کردہ فیصلوں سے ہوا ہے۔
پی ٹی آئی جب بھی عدالت کا رخ کرتی ہے، فیصلہ سب کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کا بنچ عمران خان کی حمایت کیلئے جانا جاتا ہے۔ اس بنچ نے 4 اپریل کو صوبہ پنجاب میں اس سال 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ تاہم اس 3 رکنی بنچ میں ابتدائی طور پر 9 جج شامل تھے، اور عمران خان کی حمایت نہ کرنے والے ججوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ہٹایا گیا۔ اب سپریم کورٹ کے جج متضاد بیانات دے رہے ہیں۔ اس طرح عدلیہ بھی ملک کے دیگر اداروں کی طرح منقسم ہے۔
وفاقی حکومت اور پنجاب کی نگراں حکومت نے 14 مئی کو ہونے والے انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت کے درمیان عوامی کشمکش سیاسی بحران کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کو توہین عدالت کے الزام میں موجودہ حکومت کو ہٹانے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ٹوٹتے ہوئے پاکستان کو کون سنبھالے گا؟ فوجی قبضے کا خدشہ اکثر زیر بحث رہتا ہے۔ پاکستان کی ہنگامہ خیز سیاسی تاریخ 1947ء میں آزادی کے بعد سے 32 سال تک براہ راست فوجی حکمرانی سے عبارت ہے۔ اس وقت ملٹری اسٹیبلشمنٹ ”غیر جانبدار“ ہونے کا تاثر دے رہی ہے۔
درحقیقت 2018ء کے عام انتخابات میں عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے ان کے حق میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کی۔ 2022ء کے اوائل میں جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے حمایت واپس لی تو ان کی حکومت گر گئی۔
عمران خان نے اپنے بدلتے بیانیے میں سب سے پہلے امریکہ، پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور بہت سے دوسرے لوگوں کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے زوال کے لیے قربانی کے بکرے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یو ٹرن خان کے نام سے مشہور عمران خان کی ہر تقریر ان کی پچھلی تقریر سے متصادم ہوتی ہے۔
عمران خان کی جگہ مخلوط حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نے جب آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کی تو عمران خان کو کھوئی ہوئی حمایت واپس بحال کرنے کیلئے موقع مل گیا، یہی وجہ ہے کہ اب مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں الیکشن سے بھاگنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔
آئی ایم ایف بھی اب پاکستان میں ایک گالی بن چکا ہے۔ جب بھی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے تو وجہ آئی ایم ایف کی شرائط ہی بتائی جاتی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے پاس آئی ایم ایف شرائط کو درست ثابت کرنے کا واحد بہانہ یہ ہے کہ ”اگر ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ کیں تو پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔“ عوام تو پہلے ہی دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ریاست بھی حقیقی معنوں میں دیوالیہ ہو چکی ہے، بس اس کا باضابطہ اعلان ہونے کی دیر ہے۔
پاکستان میں اس وقت شدید سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیاد پرستی کا ایک نیا ابھار نظر آرہا ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملوں میں تیزی سے اضافہ ہو اہے۔ وہ پولیس اور فوجی دستوں پر حملے کر رہے ہیں اور افغانستان میں مدد گار طالبان حکومت کے زیر سایہ محفوظ پناہ گاہیں انہیں یہ دہشت کا کھیل بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔
عمران خان نے اقتدار کے آخری ایام میں بظاہر امن مذاکرات کی کوشش میں سینکڑوں گرفتار پاکستان طالبان کو رہا کیا۔ طالبان خان کے نام سے مشہور عمران خان اور ان کے کچھ فوجی حمایتی طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور اب سیکیورٹی فورسز اس حکمت عملی کی قیمت چکا رہی ہیں۔
معاشی بحران سیاسی بحران سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ مخلوط حکومت تیل، گیس، بجلی، جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرکے آئی ایم ایف کی عوام دشمن شرائط پر عمل پیرا ہے۔ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں تقریباً روزانہ اپنی قدر کھو رہا ہے۔ 7 اپریل کو ایک ڈالر 290 روپے سے زیادہ میں فروخت ہو رہا تھا، جو ایک سال پہلے 150 سے زیادہ تھا۔
کراچی بندرگاہ پر درآمدی سامان سے بھرے سینکڑوں کنٹینرز کلیئر ہونے کے منتظر ہیں۔ حکومت نے ان درآمدی اشیاء کے لیے ڈالر میں ادا کیے جانے والے واجبات کی ادائیگی سے انکار کر دیا ہے۔ پچھلے 6 مہینوں کے دوران تقریباً تمام خوردنی اشیا اور روزمرہ استعمال کی اشیاء پر بالواسطہ ٹیکس لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگوں پر کئی منی بجٹ لگائے گئے ہیں، جن کا اعلان کسی پیشگی اطلاع کے بغیر کیا جاتا ہے۔
2019ء میں عمران خان کی سابقہ حکومت کی طرف سے طے شدہ 6 ارب ڈالر کے قرض کی 2 ارب ڈالر کی آخری قسط حاصل کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی کوشش بدستور جاری ہے۔ یہ 23 واں موقع ہے، جب پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لے رہا ہے۔
2022-23ء کی پہلی دو سہ ماہیوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے اس عرصہ کے دوران 10.21 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کئے۔ یہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب پاکستان نے 2022ء کے دوران سیلاب کی صورت بدترین موسمیاتی آفت کا سامنا کیا۔
زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر حالیہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے کم ہو کر 4.2 بلین ڈالر رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے اور شرائط پوری کرنے کے لیے پاکستان نے شرح سود میں ریکارڈ 21 فیصد اضافہ کر دیا۔ مہنگائی 37.5 فیصد کی غیر معمولی سطح پرپہنچ چکی ہے، یہ 1973ء کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی کا تناسب ہے۔محنت کش طبقے کیلئے تباہی کا پیغام ہے۔
پاکستان میں عدم مساوات تاریخی عروج پر ہے۔ ڈی ریگولیشن، پرائیویٹائزیشن، لبرلائزیشن، اور کم ترقی پسند ٹیکس اس انتہائی عدم مساوات کی وجہ ہیں۔ ایک سروے کے مطابق امیر ترین افراد کی اوسط آمدنی غریبوں کی اوسط سے 16 گنا زیادہ ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق ملک کے امیر ترین 1 فیصد کے پاس غریب ترین 70 فیصد آبادی سے زیادہ دولت ہے۔
جون 2023ء کو ختم ہونے والے رواں مالی سال میں پاکستانی معیشت میں صرف0.4 فیصد اضافہ متوقع ہے۔عوام کو کوئی امید نہیں ہے کہ حالات بہتر ہونگے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ مفت تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی عوامی مسائل حل کرنے میں بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔ ایک متبادل عوام نواز سیاسی اور معاشی ایجنڈا وقت کی ضرورت ہے۔ ترقی پسند قوتیں کمزور ہیں لیکن محنت کش طبقے کے کچھ علاقوں میں اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔