فاروق سلہریا
(نوٹ: ڈاکٹر قیصر عباس کی نئی آنے والی تصنیف امید سحر کی بات کیلئے مدیر جدوجہد فاروق سلہریا نے دیباچہ تحریر کیا تھا۔ جسے ڈاکٹر قیصر عباس کی یاد میں شائع کیا جا رہا ہے)
اگر ملاقات کی تعریف بالمشافہ ملنا ہے تو ڈاکٹر قیصر عباس کے ساتھ ابھی تک میری پہلی ملاقات نہیں ہو سکی۔ ان سے وِرچوئل ملاقات البتہ روز ہی ہو جاتی ہے۔ ان وِرچوئل ملاقاتوں کا سلسلہ غالباََ 2011 میں شروع ہوا۔ ’تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے‘: میں اُن دنوں اپنے تین دوستوں۔۔۔عدنان فاروق، ریاض الحسن اور فہیم یوسف۔۔۔کے ساتھ مل کر ’وئیو پوائنٹ‘ کو ویب سائٹ کی شکل میں بحال کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
مظہر علی خان کی ادارت میں شائع ہونے والا’وئیو پوائنٹ‘ اَسی کی دہائی میں مزاحمت کی بھی علامت تھا اور معیاری صحافت کا بھی ایک معتبرحوالہ تھا۔ مظہر علی خان جیسے صحافتی لیجنڈسے وابستہ ’ویو پوائنٹ‘ کی بحالی عدنان فاروق کی تجویز تھی۔ ایسی تجویز جوانی کے نابینا جوش میں ہی دی جا سکتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لئے بھی ایک احمقانہ نوعیت کا اعتماد درکار ہوتا ہے جو نوجوان طبقے کی ہی خاصیت ہو سکتا ہے۔قصہ مختصر، ہم نے طارق علی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اپنے خاندان کے مشورے سے ہمارے چار رکنی گروہ کو’ویو پوائنٹ‘ بحال کرنے کی اجازت دے دی۔
بغیر ادارتی تجربے، وسائل اور تعلقات کے ہم نے یہ منصوبہ شروع تو کر لیا لیکن کچھ ہی ہفتوں بعد معلوم ہوا کہ ہفت روزہ شائع کرنا روزنامہ شائع کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ ہر ہفتے معیاری نوعیت کے مضامین، بہ زبان انگریزی، شائع کرنا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن وہ جو فیض صاحب نے کہا تھا نا’بڑا ہے درد کا رشتہ،یہ دل غریب سہی: تیرے نام پر آئیں گے غمگسار چلے‘۔۔۔ایک روز ہمیں ڈاکٹر قیصر کی ای میل موصول ہوئی۔ انہوں نے نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی کی بلکہ اشاعت کے لئے ایک مضمون بھی ارسال کیا۔اس ای میل کے بعد، ہمارے حوصلے دو وجہ سے بلند ہو گئے۔ اول یہ کہ امریکی یونیورسٹیوں سے وابستہ ایک سکالر نے ہمیں شاباش دینے کے علاوہ پورے تعاون کا وعدہ کیاتھا۔دوم،ان کے مضمون کی زبان، اس میں کیا گیا مدلل تجزیہ اور اس کی عام فہم اپیل متاثر کن تھے۔
اس کے بعد،لگ بھگ ہر ہفتے ڈاکٹر صاحب کا ایک مضمون یا رِپورٹ ’ویو پوائنٹ‘ کو موصول ہونے لگے۔ جوں ہی ان کی تحریر ہمیں ای میل میں موصول ہو جاتی، ہم خوش ہو جاتے کہ اگلے ہفتے کا ’ویو پوائنٹ‘ تیار سمجھو کیونکہ ہمیں یہ تسلی رہتی تھی کہ کم از کم ایک معیاری مضمون ہم شائع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب سے رابطہ اور تعارف بھی بڑھنے لگے۔
ڈاکٹر صاحب نے 70 کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے ایم اے کیا۔ میں نے 90 کی دہائی میں اسی شعبے سے ایم اے کیا۔ شعبہ صحافت میں ڈاکٹر مہدی حسن مرحوم ترقی پسند طلبہ کے سر پرست سمجھے جاتے تھے۔ اپنے اپنے دور ِطالب علمی میں ہم دونوں ڈاکٹر مہدی حسن کے حلقے میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔دونوں نے ملک چھوڑ دینے کے باوجود ڈاکٹر مہدی حسن سے رابطہ رکھا۔ یوں ڈاکٹر قیصر کے ساتھ ایک اور تعلق بھی بن گیا۔ پھر کتنے ہی باہمی دوست دریافت ہوتے گئے۔ جن دنوں ہم ’ویو پوائنٹ‘ شائع کر رہے تھے،اُن دنوں میں لندن میں پڑھ بھی رہا تھا۔ میں نے میڈیا میں ایم اے کیا اور پھر میری پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی میڈیا بارے ہی تھا۔ اس سارے عمل میں ڈاکٹر قیصر میرے ’غیر سرکاری‘ ایڈوائزر بنے رہے۔
میڈیا سکالر کے طور پر ڈاکٹر قیصر کی اس موضوع پر کتنی گہری گرفت ہے، اس کا اندازہ تو مجھے انہی دنوں ہو گیا تھا جن دنوں میں اپنے مقالے کے سلسلے میں ان سے رہنمائی لیتا تھا لیکن مجھے اس کا حقیقی ادراک اس وقت ہوا جب میں نے ان کے ساتھ مل کر پاکستانی میڈیا پر ایک کتاب مدون کرنا شروع کی۔اکیڈیمک مطبوعات شائع کرنے والے معروف عالمی ادارے ’روٹلیج‘ کے زیر اہتمام، ’فرام ٹیلی ویژن ٹو ٹیرر ازم: ڈائنامکس آف میڈیا، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس کتاب کی تدوین کے دوران مجھے ڈاکٹر قیصر سے بے شمار علمی باتیں سیکھنے کا موقع تو ملا ہی لیکن جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ تھا ڈاکٹر قیصر کا رویہ اور خندہ پیشانی۔
پی ایچ ڈی کے دنوں میں اپنے ایک پروفیسر سے یہ سنا تھا کہ اکیڈیمیا میں آنے کے بعد ایک کتاب ضرور مدون کرنی چاہئے کیونکہ اس کے بعد آپ اس کام سے توبہ کر لیں گے۔ ’فرام ٹیرر ازم ٹو ٹیلی ویژن‘ کی تدوین کے دوران جس جس طرح کے حوصلہ شکن مرحلے آئے،اگر ڈاکٹر قیصر نہ ہوتے تو میں کتاب مرتب کرنے سے ہی پیچھے ہٹ جاتا۔ ڈاکٹر قیصر ہر مشکل مرحلے میں حوصلہ افزائی کرتے۔میڈیا امور پر ڈاکٹر قیصر کی مضبوط گرفت کی کئی وجوہات ہیں۔ڈاکٹر قیصر نے اَسی کی دہائی میں امریکہ سے پی ایچ ڈی کی اور ان کا مقالہ ریڈیو جرنلزم بارے تھا۔ امریکہ آنے سے قبل وہ پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے۔ 90 کی دہائی میں جب نئی میڈیا ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا کو جنم دیا تو وہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بنانے میں بھی مصروف رہے۔ اس کے علاوہ باقاعدگی سے اخبارات و رسائل کے لئے لکھتے رہے۔ گویا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے عملی وابستگی رکھنے والے وہ نہ صرف منفرد صحافی ہیں بلکہ پرفیشنل میڈیا سکالر بھی ہیں۔
دریں اثناء، 2019 میں ڈاکٹر لال خان اور فاروق طارق کی قیادت میں چند ترقی پسند دوستوں نے ’روزنامہ جدوجہد‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوری طور پر ڈاکٹر قیصر سے رابطہ کیا گیا۔ ہم سب کو یقین تھا کہ اگر ڈاکٹر قیصر بھی اس منصوبے کی حمایت شروع کر دیں گے تو یہ منصوبہ کامیابی سے آگے بڑھے گا۔ اس دوران ’ویو پوائنٹ‘ وسائل کی کمی کے ہاتھوں بند ہو چکا تھا گو اپنے پانچ سالہ اشاعتی دور میں یہ جریدہ پاکستان کا ایک اہم جریدہ بن کر ابھرا جس میں طارق علی سے لے کر اکبر زیدی، عائشہ صدیقہ، ڈاکٹر تقی حسن، عافیہ ضیا سمیت بے شمار معروف دانشوروں نے باقاعدگی سے لکھا۔ ایسا اسی لئے ممکن ہو سکا کہ ابتدا سے ہی ڈاکٹر قیصر نے باقاعدگی سے ’ویو پوائنٹ‘ میں مضامین شائع کئے جس نے ہماری ساکھ بنانے میں بے شمار مدد کی(وہ باقاعدگی سے ’ویو پوائنٹ‘ کی مالی مدد بھی کرتے،جس وجہ سے ہم پانچ سال یہ کام کر سکے)۔ جس کشادہ دلی اور لگن سے انہوں نے ’ویو پوائنٹ‘ کی سر پرستی کی، اسی بے مثال کمٹ منٹ کے ساتھ وہ ’روزنامہ جدوجہد‘ کی تعمیر میں بھی شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب’امید سحر کی بات‘ میں شامل کئے گئے مضامین ’روزنامہ جدوجہد‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان مضامین میں ادبی تبصرے بھی شامل ہیں،خاکے،انٹرویوز اور طنزیہ مضامین بھی۔ 7 حصوں پر مبنی،متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی اس کتاب کے مضامین سے کسی حد تک ڈاکٹر قیصر کی وسعت علمی اور قلم پر عبور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے، ایک جملہ ان کے طرز تحریر پر بھی ضروری ہے۔ اگر ایک طرف ان کی تحریر سادگی سلاست اور شائستگی کا نمونہ ہوتی ہے تو دوسری جانب ہر ہر حرف پائیدار اور جاندار ہوتا ہے کیونکہ ان کی تحریریں جذبے کے ساتھ ساتھ دلیل سے بھی مزین ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر قیصر پاکستان سے تعلق رکھنے والے سکالرز میں دو وجہ سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اول، وہ اردو اور انگریزی،دونوں زبانوں مین لکھتے ہیں اور یکساں مہارت سے لکھتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اکثر ترقی پسند پاکستانی سکالر بھی اردو میں یا لکھتے نہیں یا لکھ ہی نہیں سکتے۔ یوں وہ پاکستان کے محنت کش طبقے سے کلام کرنے کی بجائے مڈل کلاس یا اشرافیہ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس کے برعکس،ڈاکٹر قیصر نہ صرف اردو میں لکھتے ہیں بلکہ وہ تمام عمر اس کوشش میں بھی مصروف رہے کہ ایسے غیر منافع بخش میڈیا پلیٹ فارم تشکیل دئیے جائیں جہاں سے کھل کر ترقی پسند اور عوام دوست بات کی جا سکے۔ دوم، عام طور پر اکیڈیمکس کا ادب اور صحافت سے تعلق نہیں ہوتا۔ بہت سارے میڈیا سکالرز بھی عملی صحافت کا تجربہ نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر قیصر جتنے مستندمیڈیا سکالر ہیں،اتنے ہی اچھے صحافی اور مستند ادیب ہیں۔
ان کی علمی و ادبی شخصیت کا شائد اہم ترین پہلو ان کی منفرد شاعری ہے۔ ’امید سحر کی بات‘کا آغاز ان کی ایک غزل سے ہوتا ہے۔ صرف اس ایک غزل سے شاعری پر ان کے عبور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس امید ہے کہ ’امید سحر کی بات‘ کے بعد ان کی شاعری بھی،ایک مرتبہ پھر، کتابی شکل میں جلد ہی شائع ہو گی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔