فہد مڑل
میں ابھی تک ڈاکٹر قیصر عباس کی موت کا یقین نہیں کر پایا۔ وہ ترقی پسند خیالات کے حامل،نہایت ہی ہمدرد اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہر تعلیم تھے، جو واقعی پاکستان کوپسماندہ اور پسے ہوئے لوگوں کیلئے ایک منصفانہ اور مساوات پر مبنی ملک کے طور پر ابھرتا ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔
کچھ عرصہ قبل ان کی ایک تحریر پڑھنے کے بعد ای میل پر ان سے رابطہ ہوا تھا، وہ ان دنوں بیمار تھے۔ تاہم انہوں نے مجھے جواب دیا اور مجھے معاشی ترقی کے مسائل اور رینٹ سیکنگ (rent seeking)پر تحقیق کرنے سے متعلق مشورے دیئے۔
اس ملک کے بنجر دانشورانہ منظر نامے میں ایسے لوگ جوہر نایاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میری ان سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی، لیکن ان کی موت پر ایسا لگا جیسے میرا گویا کوئی اپنا چلا گیا ہو۔ کچھ ایسا محسوس ہوا، جس نے مجھے ذاتی طور پر ہلا کر رکھ دیا۔ میں ان کی تحریروں کا منتظر رہتا تھا۔
میری طرف سے ان کو بھیجی گئی آخری ای میل انتہائی مایوس کن تھی۔ وہ ایسی حالت میں لکھی گئی تھی کہ جہاں بہت سی آن لائن نفرت انگیز مہمات چل رہی تھیں۔ سرائیکی لوگوں اور سرائیکی زبان کے بارے میں بدسلوکی اور گالیوں پر مبنی مہم تھی۔ سرائیکی زبان کو دقیانوسی تصور، غیر انسانی قرار دیا جا رہا تھا۔ سرائیکیوں کو ڈاکو، چور، باہر کے لٹیرے، مجرم، جاہل اور ثقافتی طور پر غیر مہذب اور ایسے لوگ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا، جو معاشرے کیلئے خطرہ ہیں۔میں سرائیکیوں کے خلاف بہت زیادہ تعصب، نفرت اور ثقافتی نسل پرستی کی وجہ سے میں مایوس تھا، لیکن ڈاکٹر قیصر عباس نے مجھے امید دلائی۔
انہوں نے خاص طور پر نفرت انگیز اور غلط معلومات و پروپیگنڈے کو حقائق کے ساتھ رد کرنے، غلط ثابت کرنے اور ایسے دلائل کی مرکزی بنیاد کو چیلنج کرنے کو کہا جن کا مقصد محروم لوگوں کو سٹیرئیو ٹائپ بنا کر پیش کرنا اور انہیں کونے سے لگانا ہو۔
وہ بہت ہمدرد اور رحمدل شخص تھے۔ انہوں نے ایک ایسا ادبی ورثہ چھوڑا ہے، جو نوجوان صحافیوں کیلئے قابل تقلید ہے، تاکہ وہ نہ صرف تحریری کام کو آگے بڑھائیں بلکہ علمی تحقیق کے ساتھ ساتھ ادبی اور ثقافتی محاذ پر بھی خدمات سر انجام دیں۔