راولاکوٹ(جدوجہد رپورٹ) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو 4فروری2024کی رات محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اور ساتھ ہی حکومتی مصالحتی کمیٹی اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کچھ اراکین کے دستخطوں سے جو معاہدہ سامنے آیا ہے۔ اس کے مندرجات کو 5فروری کو عوام کی بڑی تعداد نے یکسر مسترد کیا ہے۔ہم آج پریس کانفرنس کے ذریعے اس نوٹیفکیشن اور معاہدہ کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اسے عوامی امنگوں سے کھلواڑ اور دھوکہ قرار دیتے ہیں۔
اس موقع پر ان کے ہمراہ سردار محمد قدیر خان (چیف آرگنائزر جے کے ایل ایف)، سردار اظہر کاشر (رہنما نیپ)، خلیل بابر(مرکزی صدر این ایس ایف)، راشد حنیف (چیئرمین دھرنا کمیٹی)، سردار زاہد خان (سربراہ عوامی محاذ) اور درجنوں دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
انکا کہنا تھا کہ عوامی حقوق تحریک کے تین بنیادی مطالبات ہیں۔
نمبر 1)۔ یہ کہ آٹے پرگلگت بلتستان کے مطابق سبسڈی فراہم کی جائے اور آٹے کی فی 40کلو گرام قیمت 1016روپے مقرر کرتے ہوئے ایلوکیشن میں اضافہ کیا جائے تاکہ تمام آبادی سستے آٹے سے مستفید ہو سکے۔ ٹارگٹڈ سبسڈی دراصل 3لاکھ50ہزار خاندانوں کو کیش رقم دینے کا ایک حکومتی منصوبہ ہے، جس کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ نہ صرف سستے آٹے سے محروم ہو جائے گا بلکہ لوگوں کو بھکاری بن کر اور اپنی عزت نفس مجروح کرواتے ہوئے کونسلروں کے ذریعے اپنی فہرستیں مرتب کروانی پڑیں گی۔ آٹے پر سبسڈی اس خطے کے لوگوں کا حق ہے، کوئی بھیک نہیں ہے کہ لوگوں کو بھکاری بنانے کا راستہ اپنایا جائے۔مل مافیا کو نکیل ڈالنے اور محکمہ خوراک کی کرپشن کا خاتمہ کرنے کیلئے ڈیجیٹل میکنزم کو اپنایا جائے۔ تمام ملوں کو نیشنلائز کیا جائے اورگندم کی خریداری سے گندم کی پسائی اور ترسیل تک کے عمل کو ڈیجیٹلائز کرتے ہوئے شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔
نمب
ر2)۔ یہ کہ بجلی منگلا کی پیداواری لاگت پر فراہم کی جائے۔ نیشنل گرڈ اسٹیشن قائم کرتے ہوئے منگلا سے براہ راست بجلی ریاست کے شہریوں کو مہیا کی جائے۔ پیداواری لاگت کا تعین کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ منگلا ڈیم کی پیداواری لاگت 2روپے7پیسے ہے، جس پر سروسز چارجز عائد کرتے ہوئے ٹیکس فری بجلی اس خطے کے شہریوں کا بنیادی حق اس لئے ہے کہ اس خطے سے 3ہزار میگاواٹ سے زائد سستی پن بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس خطے کی ضرورت 400میگاواٹ سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں پن بجلی شہریوں کو 300یونٹ تک 3روپے، 500یونٹ تک 4روپے اور 500یونٹ سے زائد بجلی 5روپے فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جا رہی ہے۔ اس سے بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پن بجلی کی اس خطے میں پیداواری لاگت بشمول سروسز چارجز3روپے سے زائد نہ ہے۔ اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ کم از کم 3روپے فی یونٹ ٹیکس فری بجلی صارفین کو مہیا کی جائے اور سلیب سسٹم کے تحت اپنائے گئے ٹیرف کا خاتمہ کیا جائے۔ گزشتہ پونے دو سال سے جو شہری بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں ان کے پچھلے بل معاف کئے جائیں۔ گزشتہ 20سال سے حکومت 5ارب18کروڑ روپے کی بجلی حکومت پاکستان سے خرید کر شہریوں کو 20ارب روپے میں فروخت کر کے لوٹتی رہی ہے۔ اس لئے 20سے 22ماہ کے بجلی کے بل معاف کر کے لوگوں کو سہولت فراہم کی جانا اس خطے کے لوگوں کا حق ہے۔
نمبر 3)۔ یہ کہ حکمران اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔ اس سلسلہ میں حکومت کے تجویز کردہ کاسمیٹک اقدامات کو ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ممبران اسمبلی، وزراء، سابق صدور اور وزراء اعظم کے پنشن اور مراعات کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی مراعات اور بھاری تنخواہوں کا خاتمہ کرتے ہوئے گریڈ 22کے ملازمین کے ساتھ تنخواہیں ہم آہنگ کی جائیں۔ لامحدود یوٹیلٹی بلز، گیس، پٹرول کی سہولیات ختم کی جائے۔ محض چند سال سروس کرنے والے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو تاحیات تنخواہ کے 70سے85فیصد تک دی جانے والی پنشن اور دیگر مراعات کا یکسر خاتمہ کیا جائے۔ وزراء، ممبران اسمبلی، بیوروکریٹس اور ججوں کوزیادہ سے زیادہ 1300سی سی گاڑیاں فراہم کی جائیں اور ان گاڑیوں کے دفتری اوقات کے علاوہ استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ بیوروکریٹس کیلئے بنیادی پے سکیل کے ڈیڑھ گناہ ایگزیکٹو الاؤنس کو یکسر ختم کیا جائے اور لینٹ افسران کیلئے سپیریئر ایگزیکٹو الاؤنس کو مکمل ختم کیا جائے، جو چیف سیکرٹری کیلئے 4لاکھ روپے ماہانہ اور آئی جی پی کیلئے 3لاکھ 75ہزار روپے ماہانہ مقرر کیا گیا ہے۔ لینٹ افسران کیلئے تاحیات مراعات کا سلسلہ بھی مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت تمام اضافی انتظامی آسامیوں کو یکسر ختم کیا جائے۔ غیر ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے کے نام پر ایڈہاک ملازمین اور چھوٹی ملازمتیں ختم کرنے کیلئے محکمہ جات کو ختم کرنے کی پالیسی سمیت پنشن اصلاحات کے ذریعے غریب ملازمین سے پنشن کی سہولت چھیننے کا سلسلہ ترک کیا جائے۔ بجٹ میں ٹرانسفر ادائیگیوں کے نام پر مختص کئے گئے 35ارب روپے، جو حکمران اشرافیہ اور بیوروکریٹس کے جعلی اعلانات، ریفریشمنٹ اور انٹرٹینمنٹ کیلئے مختص کئے گئے ہیں، اس رقم کو صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کیلئے لائحہ عمل سامنے لایا جائے اور ٹرانسفر ادائیگیوں کے نام پر مختص رقم کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔
کسی طرح کے بھی کاسمیٹک، ظاہری اور مصنوعی اقدامات کسی صورت قابل قبول نہیں ہونگے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع ہونے والی ٹیکسوں کی رقم کو حکمران اشرافیہ، ججوں اور نوکر شاہی کی عیاشیوں پر لٹانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ رقم اس خطے کے عوام کو صحت، تعلیم، روزگار اور انفراسٹرکچر کی تعمیر جیسی سہولیات فراہم کرنے کیلئے خرچ ہونی چاہیے۔
درج بالا تین بنیادی مطالبات پر اس خطے کے عوام گزشتہ طویل عرصہ سے مختلف مراحل میں احتجاج کرتے آئے ہیں۔ تحریک کے حالیہ مرحلہ میں گزشتہ نو ماہ سے مسلسل احتجاجی دھرنے اور بل بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم مذاکرات کے نتیجے میں معاہدوں اور نوٹیفکیشن کے نام پر عوام کی امنگوں کے ساتھ کھیلا گیا ہے۔
ہم ایک عام آدمی کی طرح روز اول سے اس تحریک میں بھرپور طریقے سے شریک ہیں اور اس وقت تک اس جدوجہد کا حصہ رہیں گے، جب تک یہ درج بالا مطالبات مکمل طو رپر حل نہیں ہو جاتے۔ ان مطالبات کے حصول میں جو بھی رکاوٹ بنے گا، یا کسی بھی طرح سے ان مطالبات سے دستبرداری اختیار کرے گا، یا پھر کسی بھی نوعیت سے عوام کوکوئی جھوٹی تسلی یا وعدے میں الجھانے کی کوشش کرے گا، ہم اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گے۔
ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی ان مطالبات کو پوری توجہ سے سمجھیں اور مطالبات کی منظوری تک بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھیں، جب تک یہ مطالبات منظور نہیں ہوتے کسی صورت اس تحریک سے دستبردار نہ ہوں اور جو بھی ان تمام مطالبات کی منظوری سے قبل دستبردار ہونے کی کوشش کرے اس کے خلاف اسی طرح سے آواز اٹھائیں، جیسے 5فروری کو لوگوں نے بھرپور طاقت کے ساتھ اس نوٹیفکیشن اور معاہدے کو مسترد کیا ہے۔