خبریں/تبصرے

X بندی کا ایک ہفتہ: سوشل میڈیا کی طاقت کا شور مچانے والے کہاں ہیں؟

فاروق سلہریا

ایکس (ٹوئٹر) پر پابندی لگے ہوئے ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ پابندی قابل مذمت ہے۔ دم توڑتی جمہوریت کے لئے اس قسم کی پابندیوں کا مطلب ہے کہ جمہوریت کے کفن دفن کا وقت اور قریب آ گیا ہے۔

ماضی میں کئی مہینوں تک اس ملک میں یو ٹیوب پر بھی پابندی لگی رہی ہے۔ میڈیا کے کسی کونے کھدرے میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ تازہ پابندی کے لئے سافٹ وئیر کسی امریکی کمپنی نے فراہم کیا ہے۔

سعادت حسن منٹو زندہ ہوتے تو چچا سام کو نیا خط ضرور لکھتے کہ چچا سام پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بیچتا ہے،پھر ان کو روکنے کے لئے سافٹ وئیر بنا کر بیچتا ہے۔ تیسری دنیا خوشی خوشی دونوں خرید لیتی ہے۔

اس مختصر تحریر کا لیکن میڈیا بارے یہ بنیادی اصول یاد دلانا مقصود تھا کہ (سوشل)میڈیا کے پاس طاقت نہیں ہوتی،طاقت کے پاس (سوشل) میڈیا ہوتا ہے۔

ترقی پسند قوتیں سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال ضرور کریں لیکن مین اسٹریم میڈیا سکالرز کی پھیلائی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کہ سوشل میڈیا کے پاس طاقت ہوتی ہے۔

باقی آپ کی مرضی ہے!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔