نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز‘سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل’ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ 1930ء کی دہائی کے ‘گریٹ ڈپریشن’ کے بعد2008ء کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا بحران ہے جو اب تک مسلسل جاری ہے۔ معیشت، سیاست، ماحولیات، صحت، نظریات اور عالمی غلبے کے بحرانات یکجا ہو کر ایک دوسرے کی شدت میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بحران کی جڑ شرح منافع کی گراوٹ کا رجحان ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کے پاس استحصال، جبر اور بربادی کو بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس بحران کا کوئی حل ممکن ہی نہیں ہے۔
تمام حکومتوں، ان کے اداروں اور پالیسیوں کا حتمی مقصد شرح منافع یا منافع خوری (Profitability) کی بحالی ہے۔ روایتی بورژوا پارٹیاں ہوں، انتہائی دائیں بازو کے رجحانات ہوں یا پھر اصلاح پسندی کی سیاسی قوتیں’ سب محنت کش عوام کے خلاف کٹوتیوں اور معاشی حملوں میں مصروف ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں سماجی اور سیاسی پولرائزیشن، انقلابات، بغاوتیں اور سیاسی بحرانات جنم لے رہے ہیں جو پھر مسلسل عدم استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ 2008ء کے بحران سے سرمایہ دارانہ نظام کے کلیدی اداروں کا ‘‘واشنگٹن اتفاق رائے’’ (Washington Consensus) بکھر چکا ہے، نظام کو ایک نظریاتی بحران کا سامنا ہے اور عوامی سطح پر سرمایہ داری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ 2008ء کے کریش سے امریکہ کی معاشی، سیاسی اور نظریاتی گراوٹ’ عراق اور افغانستان میں اس کی شکست کے ساتھ مل کے جیوپولیٹیکل بحران کو دوبالا کر رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کی زوال پذیری اور چین کے عالمی معاشی اور سیاسی ابھار سے عالمی بالا دستی کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ منافعوں کے سکڑتے ہوئے ہجم پر سامراجی طاقتوں کے بڑھتے تنازعات سے سامراجی ٹکراؤ اور ایٹمی جنگ کا خطرہ پھر حقیقت کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔
منافعوں کی ہوس سے ماحولیاتی بحران کی تباہ کاریاں شدید ہوتی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس کے مطابق قوی امکان ہے کہ گلوبل وارمنگ(کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ) نسل انسان کی بقا کو خطرے میں ڈالنے کی نا قا بل واپسی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔آگ، خشک سالی، سیلاب اورکئی دوسرے شدید موسمیاتی حالات دنیا بھر میں معمول بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود سرمایہ داری آلودگی اور گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کے طریقہ ہائے پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے اور انہیں روکنے اور واپس کرنے کا کوئی ٹھوس سرمایہ دارانہ منصوبہ نہیں ہے۔ نہ ہی اس نظام میں ایسی کوئی قابلیت نظر آتی ہے۔
کو وڈ کی وبا نے سرمایہ داری کے بحران میں ایک اور پرت کا اضافہ کیا ہے۔ یہ ظاہر ہوا کہ سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار ایسی مہلک وباؤں کو جنم دیتا ہے جن پر یہ خود قابو پانے سے قاصر ہے۔ لیکن صحت کا بحران کووڈ کی وبا سے شروع ہوا’ نہ ہی اس پر نسبتاً کنٹرول سے یہ ختم ہو اہے۔ ہر سال ہیضہ، ملیریا، ڈینگی اور ایڈز سے لاکھوں انسان ہلاک ہو رہے ہیں۔ صحت کا بحران سرمایہ داری کے مستقل مضمرات میں شامل ہے۔
سرمایہ داری کے نظام کے بحران کا ہر پہلو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظام پیداواری قوتوں کو ترقی دینے اور انسانیت کو آگے بڑھانے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ بلکہ دولت کے دو بنیادی ماخذوں’ فطرت اور انسانیت کی بے نظیر تباہی کر رہا ہے۔ماحولیات کی بربادی اس سطح پر جا پہنچی ہے کہ اس میں نسل انسان کا رہنا مشکل ہوچکا ہے۔ بے قابو وبائیں اور منافعوں کی ہوس میں سامراجی لڑائیاں ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو قریب لاتی جا رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام فل سپیڈ کیساتھ اور بریک کے بغیر انسانیت کو بربریت اور خاتمے کی جانب دھکیل رہا ہے۔ موجودہ نظام میں اس بربادی کو روکنایا واپس لانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس نظام کی خصلت میں شرح منافع کی بحالی کی کوششوں کے بر خلاف جانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کی توسیع یا پھیلاؤ کے ایک نئے دور کی پیش بینی کر نے والوں کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ سرمایہ داری صرف مزید تباہی اور بربادی ہی دے سکتی ہے۔ اصلاح پسندی ایک یوٹوپیا اور موجودہ نظام کے اندر بہتری کے امکان کی بات ایک دھوکہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیے بغیر ریڈیکل جمہوریت کے قیام، نیو لبرلزم کے خاتمے، دولت کی از سر نو تقسیم اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے تمام منصوبے اور ارادے بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ نام نہاد ترقی پسند اور قوم پرست حکومتیں بھی بالآخر عوام کے خلاف وہی نیو لبرل حملے اور کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو پہلے سے جاری ہیں۔ سائریزا (یونان) یا پوڈیموس (سپین) جیسی بائیں بازو کی جماعتوں اور بوریک (چلی)، پیڈرو کاستیلو (پیرو) اور پیٹرو (کولمبیا) وغیرہ جیسے دوسرے ‘‘ریڈیکل’’ لیڈر وں نے بھی اقتدار میں آنے پر کٹوتیوں (آسٹیریٹی) کے پروگرام ہی لاگو کیے ہیں۔محنت کش عوام کی زندگیوں میں قابل ذکر اور معقول بہتری لانے والے کوئی بھی اقدامات سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے بڑی حد تک ناممکن ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ عوام کے حق میں انتہائی معتدل اقدامات بھی اس نظام کے لیے نا قابل قبول ہیں جو استحصال، کٹوتیوں اور جبر میں اضافے کے بغیر منہدم ہو جائے گا۔ ایسے میں کینیشین رجحانات، فلاحی ریاستوں یا اصلاح پسند رعایات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے اندر رہنے والے تمام سیاسی رجحانات محنت کش عوام کے مزید استحصال کی خاطر جبر اور استبداد میں اضافہ چاہتے ہیں۔ بر سر اقتدار آنے والے دائیں اور انتہائی دائیں بازو کے سیاسی رجحانات بھی ناکامی سے دوچار ہیں کیونکہ وہ بھی ان امیدوں اور مجوزہ تبدیلیوں کو عملی جامہ نہیں پہنا پاتے جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
ایسے میں بورژوا طبقے اور اس کی ریاست کو شکست دئیے بغیر انسانیت کے مسائل کا کوئی ٹھوس حل ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی حل صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب محنت کش عوام سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے کے ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کا عمل شروع کریں اور اپنی تقدیر کے فیصلے خود جمہوری انداز میں کر پائیں۔
عالمی معیشت بحال نہیں ہو رہی…
سال 2024-25ء کے لیے تمام پیشین گوئیاں معاشی صورتحال کو ‘‘غیر یقینی’’ قرار دے رہی ہیں اور وبا کے بعد امریکی معیشت کی ‘‘سافٹ لینڈنگ’’ کی بات کر رہی ہیں۔ ورلڈ بینک کی سالانہ رپورٹ کا مارکسی سیاسی معاشیات کی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو درج ذیل اہم نکات سامنے آتے ہیں:
ّؐ
٭ امریکہ میں متوقع شرح نمو محض 1 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ یعنی 2023ء میں تو امریکہ کساد بازاری (ریسیشن) سے بچ گیا لیکن 2024-25ء میں معاشی جمود کی پیش بینی ہے۔ اوریہ پیش بینی بھی صرف امریکہ کے لیے ہے ( جو کہ بلا شبہ بہت اہم ہے) نہ کہ دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں کے لیے (یعنی ان کے حالات اس سے بھی بدتر ہیں)۔
٭ جی سیون (G-7) ممالک کی دوسری معیشتوں کے حالات اور امکانات خاصے مخدوش ہیں۔جرمنی کی معیشت میں 2023ء کے دوران 0.3 فیصد کی گراوٹ آئی ہے اور 2024ء میں اس سے بد تر کی توقع ہے۔ جس میں اہم عنصر مینو فیکچر نگ کے شعبے میں گراوٹ ہے۔
٭ 2023ء کی آخری سہ ماہی میں فرانس اور برطانیہ کی معیشتوں کی کارکردگی منفی رہی ہے۔ کینیڈا اور جاپان کی بھی یہی حالت ہے جبکہ اٹلی جمود کا شکار ہے۔ اور کئی دوسری جدید سرمایہ دارانہ معیشتیں باقاعدہ ریسیشن (دو سہ ماہیوں تک مسلسل سکڑاؤ) کا شکار ہیں جن میں نیدرلینڈز(ہالینڈ)، سویڈن، آسٹریا اور ناروے شامل ہیں۔
٭نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی وبا میں کمی اور 2022ء میں بین الاقوامی تجارت کے معمول پر آنے کی ‘‘بحالی’’ کے بعد اب سست روی کا شکار ہیں۔
٭ اگرچہ عالمی سطح پر 2023ء کے دوسرے نصف میں افراطِ زر کی شرح میں معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اگر وبا کے خاتمے سے لے کر اب تک کے دور کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں لوگوں کی اکثریت کے لیے قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ غریب یا درمیانی آمدن والے بیشتر ممالک میں قیمتوں میں اضافہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مثلاً پاکستان میں افراطِ زر 40 فیصد جبکہ ارجنٹینا میں 200 فیصد سے بھی اوپر ہے۔
٭ عالمی سطح پر دوسری عالمی جنگ کے بعد 2019-23ء کے دوران تنخواہ دار گھرانوں کی حقیقی آمدن میں پہلی بار کمی واقع ہوئی ہے۔
٭ گزشتہ برس افراط زر میں کچھ کمی آئی ہے لیکن بحیرہ احمر میں یمن کے ساحل پر نیٹو کی سامراجی یلغار اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں حالات بگڑ جانے سے توانائی کی قیمتوں میں پھر سے اضافہ ہو رہا ہے اور مہنگائی کے ایک نئے سلسلے کا امکان بہت بڑھ گیا ہے۔
عالمی بینک کی جانب سے دو بیانات ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں:
ٔٔ٭ اگرچہ امریکہ میں کساد بازاری نہیں لیکن ‘‘ عالمی معیشت تیس سال میں نمو کی بد ترین نصف دہائی کی جانب گامزن ہے۔’’
٭ حالیہ معاشی سست روی کے پیچھے بڑی معیشتوں میں روزگار اور قدر (ویلیو) پیدا کرنے والے شعبوں میں پیداواری سرمایہ کاری کی گراوٹ کارفرما ہے۔
ہمارا مارکسی تجزیہ اس جزوی وضاحت کو مکمل کرتا ہے کہ پیداواری سرمایہ کاری میں گراوٹ کی وجہ عالمی سرمائے کی شرح منافع میں تاریخی کمی ہے ( ٹیکنالوجی اور توانائی کی اجارہ داریوں کو چھوڑ کر) جو سرمائے کو سٹہ بازی کی جانب مائل کرتی ہے۔ شرح منافع میں گراوٹ کے عالمی اور کلیدی رجحان کے ساتھ کچھ دوسرے عوامل مل کے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی کیفیت کا تعین کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
٭کارپوریشنیں (سرمایہ دارانہ کمپنیاں)، ریاستیں اور عام افراد بہت زیادہ مقروض ہو چکے ہیں۔
٭امریکی مرکزی بینک افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافے کا استعمال کرتا ہے جس سے قرضے مزید مہنگے ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں قرضوں کی ادائیگیاں مزید پیچیدہ اور مشکل ہو جاتی ہیں۔ یہ انتہائی دھماکہ خیز امر ہے کیونکہ دنیا بھر میں سامراج پر معاشی طور پر منحصر ممالک کو سماجی اخراجات میں ظالمانہ کٹوتیاں کرنا پڑتی ہیں جن سے پولرائزیشن اور طبقاتی جدوجہد میں شدت آتی ہے۔
٭آکسفیم کی تازہ ترین رپورٹ ‘‘امیر ترین کی بقا’’ کے مطابق 25 سال میں پہلی مرتبہ انتہائی امارت اور انتہائی غربت میں ایک ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء کے بعد وبا اور پھر ضروریات زندگی کی قیمتوں کے بحران کے سالوں میں پیدا ہونے والی کل دولت میں سے 26 ٹریلین ڈالر (63 فیصد) امیر ترین 1 فیصد کے قبضے میں آئے جبکہ صرف 16 ٹریلین ڈالر (37 فیصد) باقی ماندہ ساری دنیا کے حصے میں آئے ہیں۔ اس دوران ارب پتی افراد کی دولت میں ہر روز 2.7 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ دس برسوں میں ان کی دولت دگنی ہو چکی ہے۔
٭ دوسری جانب کم از کم 1.7 ارب محنت کش ان ممالک کے باسی ہیں جہاں مہنگائی اجرتوں میں اضافے سے تجاوز کر چکی ہے اور 82 کروڑ سے زیادہ انسان ( دنیا میں ہر دس میں سے ایک انسان) بھوکے سوتے ہیں۔
٭ دنیا میں تین چوتھائی حکومتیں اگلے چار برسوں میں عوامی سہولیات کے شعبوں میں اخراجات پر کٹوتیاں لگانے جا رہی ہیں تا کہ 7.8 ٹریلین ڈالر کے قرضوں سے نمٹا جا سکے۔ اس صورتحال میں عوام کے خلاف جنگی بنیادوں پر لیبر، سوشل سکیورٹی اور ٹیکس ‘اصلاحات’ نافذ کی جا رہی ہیں۔ ان عارضی اقدامات کا مقصد مزید وقت یا گنجائش حاصل کرنا ہے اور ان کے نتیجے میں سماجی تضادات اور پولرائزیشن میں شدت ہی آئے گی۔
٭ چین کی معیشت اور بالخصوص رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بھی تناؤ کا شکار ہے جس کی وجہ نجی سرمائے کی مداخلت سے جنم لینے والے سٹہ بازی کے بلبلے ہیں۔ فی الوقت وہ مزید مسائل سے بچنے کی خاطر ریاستی مداخلت کا سہارا لے رہے ہیں۔ چنانچہ دیگر بڑے سرمایہ دارانہ ممالک کی طرح چین میں بھی ‘‘Zombie’’ کمپنیوں کے مظہر نے جنم لیا ہے ( یعنی ایسی کمپنیاں جو اپنی آمدن اور اخراجات کے حوالے سے بمشکل چل رہی ہیں اور خود کو قائم رکھنے کے لیے ریاستی امداد وغیرہ جیسے مصنوعی طریقوں پر منحصر ہیں)۔ چینی معیشت میں موجود یہ متضاد عنصر مسلسل عدم توازن کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اگرچہ چین کی معاشی نمو کے اعشاریے نسبتاً بلند ہیں لیکن وہ وبا سے قبل کی سطح سے کم ہیں۔ ایسے حالات میں چین کی سامراجی توسیع کی عالمی پالیسی میں تیزی آئی ہے تاکہ داخلی معیشت کی کمزوری کا ازالہ عالمی دولت میں حصے داری بڑھا کے کیا جا سکے۔ اس میدان میں چین کا امریکہ سے ٹکراؤ ہو رہا ہے اور سامراجوں کے آپسی تناؤ میں شدت آ رہی ہے۔