فاروق سلہریا
نواز شریف اور عمران خان میں بے شمار مماثلتیں ہیں۔ دونوں جنرل ضیا کے منہ بولے بیٹے تھے۔ دونوں کو پہلی بار فوج نے دھاندلی کے ذریعے پہلی بار وزیر اعظم بنوایا۔ نواز شریف کو 1990 میں جن انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے وزیر اعظم بنوایا،انہیں سپریم کورٹ نے دھاندلی زدہ قرار دیا۔امید ہے ایک دن 2018 اور 2024 کے انتخابات بارے بھی سپریم کورٹ کی کوئی وضاحت آ جائے گی۔ بھٹو کی پھانسی والے مقدمے کی طرح،چالیس پچاس سال انتظار کرنا ہو گا۔
نوے میں وزیر اعظم بننے کے بعد، نواز شریف نے سچ مچ اپنے لئے ایک سماجی بنیاد حاصل کر لی،گو وہ 1993 کا انتخاب ہار گئے۔ ایک اور مماثلت۔نواز شریف کونکالا تو گیا مگر وہ دو مرتبہ پھر وزیر اعظم ہاوس میں واپس آ گئے۔ ان کے بارے میں مشہور ہوا کہ وہ وزیر اعظم ہاوس میں آتے تو فوج کے ساتھ دوستی کر کے ہیں،جاتے لڑائی کر کے ہیں۔ فوج نے اس کا حل یہ نکالا کہ اب وزیر اعظم کی کرسی پر ان کے بھائی کو بٹھا دیا ہے۔
عمران خان بھی فوج کی مدد سے ایوان وزیر اعظم پہنچے۔ پھر فوج کی اندرونی لڑائی میں ایسے الجھے کہ اب قیدی نمبر 804 کہلاتے ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے صفحات پر ہم نے گذشتہ دو سال میں بارہا لکھا کہ فوج انتخابات کے بعد، عمران خان کو حکومت میں واپس نہیں آنے دے گی۔
انتخابات کے بعد جس طرح نواز شریف کو بے دخل کیا گیا ہے اس سے سب سے زیادہ پریشانی عمران خان کو ہونی چاہئے۔ نواز شریف سے وزیر اعظم کی کرسی چھین کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جی ایچ کیو سے لڑائی کرنے والوں پر اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
کیا یہ فیصلہ ادارہ جاتی شکل اختیار کرے گا یا قیادت کی تبدیلی (جنرل عاصم منیر ایکسٹنشن لیں گے مگر بہر حال ایک دن انہیں ریٹائر ہونا ہے)کے بعد یہ فیصلہ واپس ہو جائے گا؟ زیادہ امکان ہے کہ فوج اس فیصلے پر کاربند رہے گی۔
عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ موجودہ ہائبرڈ پلس نظام پانچ سال پورے کرے گا یا نہیں۔ زیادہ امکان تو اس بات کا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل درآمد موجودہ حکومت کو مزید غیر مقبول بنائے گا۔ اس حکومت کو پہلے سے ساکھ کا مسئلہ درپیش ہے۔ گو1990 اور 2018کے انتخابات بھی متنازعہ تھے مگر اس قدر ساکھ سے عاری ’جمہوری‘حکومت اس سے پہلے وجود میں نہیں آئی۔
معاشی بحران کی وجہ سے کئی طرح کی لڑائیاں ہوں گی۔
اوپر سے جب یہ حکومت عوام دشمن اقدامات کرے گی تو اس کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت،عمران خان کو فائدہ پہنچائے گی بشرطیکہ وہ ڈٹ کر جیل میں بیٹھے رہیں۔ ایسے میں فوج یہ سوچنے پر مجبور ہو سکتی ہے کہ ایسے ساکھ سے عاری ہائبرڈ رجیم چلانے کی بجائے مارشل لا کیوں نہ لگا دیا جائے۔ عین ممکن ہے موجودہ قیادت ایسا نہ کرے۔ اگر بات مارشل لا کی طرف گئی تو پھر عمران خان جیل سے باہر تو آ جائیں (بشرطیکہ وہ اس قدر سخت جان ثابت ہوئے کہ اگلے دو تین سال جیل میں بیٹھے رہیں)مگر ایوانِ وزیر اعظم ان کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر جمع فینز کی نظر عمران خان بھلے کوئی اوتار ہوں گے، بہر حال وہ ایک انسان ہیں جن کی عمر پلاسٹک سرجری کے باوجود بڑھتی جا رہی ہے۔ بائیولوجی کے بعض مسائل کا حل سائنس ابھی تک نہیں نکا ل سکی۔
قصہ مختصر، بغیر فلمی طرز کی ڈرامائی تبدیلیوں کے، عمران خان کا دوبارہ وزیر اعظم بننا آسان نہیں۔ کم از کم نواز شریف کا انجام تو اسی جانب اشارہ کر رہا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔