ادارتی بورڈ
معزز قارئین!
آج ’روزنامہ جدوجہد‘ کی پانچویں سالگرہ ہے۔ جدوجہد کے اجراء کے موقع پر اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ ایک متبادل صحافتی ادارے کو تعمیر کیا جائے گا، جو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے بلاتخصیص صحافتی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔
5سال قبل انقلاب روس کے قائد ولادیمیر لینن کے یوم پیدائش کے موقع پر ’جدوجہد‘ کا پہلا آن لائن شمارہ پوسٹ کیا گیا تھا۔ ان 5سالوں کے دوران جدوجہد کی ٹیم نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔جو اہداف ابتدائی سالوں میں حاصل کرنے کا تہیہ کیا گیا تھا، شاید وہ مکمل طور پر تاحال حاصل نہیں کئے جا سکے ہیں۔ تاہم ان اہداف کی جانب جدوجہد کی ٹیم کا سفر نہ صرف جاری ہے بلکہ گزشتہ5سالوں کے دوران جدوجہد نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اس دوران جدوجہد کے ادارتی بورڈ کی ٹیم میں جہاں نئے لوگوں کا اضافہ کیا گیا، وہیں ادارتی بورڈ کے دو بانی اراکین ڈاکٹر لال خان اور ڈاکٹر قیصر عباس کی وفات جیسے صدموں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
کل وقت عملے اور رضاکار لکھاریوں کی بنیاد پر جدوجہد کی ٹیم مسلسل اشاعت کا سلسلہ جاری رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ تاہم ابھی بھی بہت سے اہداف حاصل کرنا باقی ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں اور زیر انتظام علاقوں کو متناسب کوریج دینے کیلئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ ٹیم میں مزید اضافے کی ضرورت ہے اور سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو مزید موثر اور مقبول کرنے کیلئے کل وقتی عملے میں اضافے سمیت دیگر نوع کی مالیاتی ضروریات بھی درپیش ہیں۔
گزشتہ سال ہم نے ہدف لیا تھا کہ جدوجہد کے انگریزی ایڈیشن کی اشاعت کے ساتھ ساتھ یو ٹیوب چینل کا اجراء بھی کیا جائے گا۔ تاہم تمام تر تیاری کے باوجود ہم تاحال یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ رواں سال اس ہدف کو حاصل کرنے کی بھرپورکوشش کے عزم کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر جدوجہد کی موجودگی اور مقبولیت میں اضافے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
ان 5سالوں کے دوران قارئین کی دلچسپی اور مالیاتی تعاون کی وجہ سے جدوجہد کی اشاعت کا تسلسل جاری رکھا گیا ہے۔ایک مستند ادارتی ٹیم تیار کی گئی ہے، تاہم ابھی بھی کوشش ہے کہ کل وقتی عملے میں اضافہ کیا جا سکے تاکہ نہ صرف تحریری کام میں مزید تنوع پیدا کی جا سکے، بلکہ یو ٹیوب چینل اور انگریزی ایڈیشن کی اشاعت کو بھی ایک تسلسل دیا جا سکے۔
5سال قبل، جب جدوجہدکا اجراء کیا جا رہا تھا، اس وقت بھی پاکستا ن میں معلومات تک رسائی کے راستے میں ریاستی رکاوٹیں کم نہیں تھی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان 5سالوں میں یہ پابندیاں مزید سخت ہوتی گئی ہیں۔ میڈیا سنسرشپ اور ریاستی دھڑے بندی کے نتیجے میں گہری سماجی، سیاسی، صحافتی اور ثقافتی تقسیم نے حقائق تک عوام کی رسائی کا راستہ تقریباً بند کر کے رکھ دیا ہے۔
اس تمام تر دھڑے بندی، تقسیم اور سنسرشپ کے باوجود روایتی میڈیا میں حکمران طبقات کے مفادات کی ترجمانی تو بھرپور ہو رہی ہے۔ تاہم اس سماج کے اکثریتی طبقہ کی نمائندگی اور ترجمانی مکمل طور پر مخدوش ہو کر رہ گئی ہے۔عالمی سامراجی اداروں کی نیو لبرل پالیسیوں کے جارحانہ نفاذ کے باعث محنت کشوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ جو کچھ سہولیات ماضی میں اگرکسی محدود پیمانے پر محنت کشوں کو میسر بھی تھیں، انہیں بھی اب چھینا جا رہا ہے۔ دوسری جانب میڈیا میں ان تمام تر سامراجی پالیسیوں کی وکالت کی جا رہی ہے۔
ایسے میں متبادل میڈیا کی تعمیر جتنی آج سے 5سال پہلے ناگزیر تھی، آج اس کی ناگزیریت اس سے بھی کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک متبادل میڈیا کو تعمیر کرنا اور پھر اس کو سماج کی ہر پرت تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینا نہایت ضروری ہے۔
جدوجہد کی ٹیم اس متبادل کی تعمیر اور پھیلاؤ میں اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کرنے کا عزم کرتی ہے۔ ساتھ ہی ہم قارئین اور انقلابی سیاسی کارکنوں سے بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ جدوجہد کے پھیلاؤ میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ تاکہ جہاں قارئین کی دلچسپی اور مالیاتی تعاون سے ایک متبادل میڈیا کی تعمیر کا عمل کسی حد تک مکمل ہو پایا ہے، وہاں اس متبادل کی محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کی رسائی کو بھی ممکن بنایا جا سکے۔
ایک بار پھر ہم یہ عزم دہراتے ہیں کہ ملک بھر میں یونیورسٹیوں، کالجوں، سکولوں اور کارخانوں،فیکٹریوں تک ہم جدوجہد کو پہنچانے اور متعارف کروانے کیلئے تمام تر کاوشیں بروئے کار لائیں گے۔ اس انقلابی سفر کو جاری رکھیں گے اور امید رکھیں گے کہ قارئین بھی حوصلہ افزائی اور تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!