فیضان طارق
انسان ایک سماجی جانوار ہے اور زمین پر موجود باقی نسلوں کی طرح ہی ایک نسل ہے اور فطرت کے قوانین کے مطابق ہی ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ انسان جو فطرت کا ہی ایک مادی اظہار ہے اور اس فطرت کے ایک جزو زمین کے اجتماعی حالات (ماحول) کے مابین براہ راست تعلق میں ہے ،یعنی اس پرانحصار بھی کرتاہے اور اس میں گنجائش بھی نکال رہا ہے۔ آخر ہم براہ راست صرف اس کا ہی ماحول کے ساتھ تعلق کیوں بیان کر رہے ہیں ۔یہ تمام وہ سوالات ہیں جو فطرت اور اس کے ماحول کا براہ راست انسان کے ساتھ تعلق اور ان کے تعلق میں موجود پیچیدگیوں کی گتھی کو سلجھائیں گے۔ آئیں ہم ایک سفر پر چلیں جہاں ہم تجربہ اور مشاہدہ کی مثالوں کے نتیجہ میں ان تمام تر سوالات کا حل دیکھنے کی کوشش کر سکیں۔
سب سے پہلے فطرت کے وجود کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ فطرت کا کوئی منظم اظہار موجود نہیں ہے ۔فطرت ایک لا محدود مشاہدہ ہے جس کی نہ ہی کوئی منظم ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی اختتام ۔یہ ایک لا محدود تسلسل ہے اور جو فطرت ہم جانتے ہیں وہ مشاہداتی فطرت ہے۔ کیونکہ ابھی ہمارا موضوع ماحول ہے ،تو ہم اس کی طرف بڑھیں گے ۔فطرت جو ابھی تک ہمارے علم میں ہے اپنا مادے،انرجی اور ان کے باہمی تعلق کی بنیاد پر اظہار کرتی ہے اور اسی اظہار کے نتیجہ میں مختلف کہکشائیں اور ان میں موجود ستارے، سیارے، ھسٹروڈ،دومیکید،شہاب ثاقب اور باقی فلکیاتی اشیاء وجود میں آئی ہیں، اور ان تمام کا اپنا کوئی نا کوئی مادی ماحول موجود ہے ۔ ہمارا موضوع انسان کے ماحول سے ہے ، اس لئے ہم سیدھا ملکی وے کہکشاں کے ایک نظام شمسی کے سورج کے گرد گردش کرنے والے ایک سیارے زمین کا ماحولیاتی مطالعہ کریں گے، جہاں انسان اور باقی اجسام ایک خاص ماحول میں موجود ہیں۔
زمین کے ماحول کو سمجھنے سے پہلے ہم یہ سمجھ لیتے ہیں ماحول کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں‘‘وہ اجتماعی حالات جو تمام Biotic(حیاتیاتی) اور Abiotic(ٹھوس،مایا اور گیس) اجزاء کو گھیرے ہوئے ہیں ماحول کہلاتے ہیں۔ یہ تعریف زمین کے حوالہ سے ہے .ضروری نہیں کہ باقی فلکیاتی اشیاء پر بھی اجتماعی حالات اسی طرح کے ہوں ۔ نقطہ یہ ہے کہ جہاں جو بھی اجتماعی حالات موجود ہوں وہ وہاں کا ماحول بنائیں گے۔
اب ہم زمین کے اجتماعی حالات کو دیکھیں تو چار دائرے (spheres) مل کر زمین کے اجتماعی حالات بناتے ہیں ،جن میں اٹماسفیئر،لیتھو سفیئر، ہائیڈروسفیئر اور بائیوسفیئرشامل ہیں ۔ یہ تمام مل کر زمین کا اجتماعی ماحول بناتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہی کیوں زمین کے ماحول کی وجہ بنے؟ اس کا جواب ہمیں زمینی ماحول کے اجزاء سے ملتا ہے یعنی جب ابتدا میں زمین Abiotic اجزاء کے نتیجہ میں وجود میں آئی تو اس پر ان اجزاء کے نتیجہ میں spheresوجود میں آنا شروع ہوئے ،جیسے ٹھوس حالت نے لیتھو سفیئر ، مایا حالت نے ہائیڈروسفیئر،گیسوں کی حالت نے اٹماسفیئر اور انہی کے ملاپ سے پھر بائیوٹک اجزاء کا وجود ہوا ،یعنی حیات ،جنہوں نے بائیو سفیئر کا وجوف قائم کیا ۔ اب زمین پر انھی Bioticاور Abioticاجزاء نے تین طرح کے عمل قائم کیے جوفزیکل، کیمیکل اور بائیولوجیکل عوامل ہیں۔ اب یہاں یہ سمجھ لینا سب سے اہم ہے کہ فزیکل اورکیمیکل عوامل ہی بائیولوجیکل عوامل کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی لیے زمین پر زندگی کا آغاز ہوا اور یہاں سے پھر زندگی مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتی ہوئی انسانی شکل میں آ پہنچی ۔
اب ارتقا ء الگ سے ایک وسیع موضوع ہے ۔ اس لیے ہم اس پر زیادہ بات نہیں کریں گے ۔ البتہ اتنا جاننا ضروری ہے کہ انہی اجتماعی عوامل نے زندگی کا آغاز کیا اور زندگی آگے پھر فطرت کے فطری انتخاب کے قانون کے نتیجہ میں مختلف شکلوں میں ارتقا پذیر ہوئی ۔ یہی ماحول ہی فطری انتخاب کے قانون کو حرکت دیتا ہے۔
اب ہم ارتقاء کے نتیجہ میں وجود آنے والے انسان کو دیکھیں تو اس نے وجود کو قائم رکھنے کے لیے فطری انتخاب کے قانون کے مطابق اپنے آپ ڈھالتے ہوئے شعور حاصل کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعور کیسے حاصل کیا اور زمین پر سب سے شعوری نسل انسان ہی کیوں ہے ،یعنی ماحول سے براہ راست تعلق میں ہے؟ تو اس کا جواب بھی یہی ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں ۔جب ابتدا میں بن مانس ایک ساتھ جنگل میں رہتے تھے ،تب شمالی افریقہ میں موسمیاتی تبدیلیوں نے ایک بڑی فیصلہ سازی کی کہ ارتقاء کے نتیجہ میں وجود پانے والی تین بن مانسوں کی نسلیں آپس میں جدا ہوئیں۔ گوریلا،جو بن مانسوں میں سب سے طاقتور تھے اور وجود کو برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ جفاکش بھی ،وہ درختوں پر ہی رہے ۔دوسرے چیمپینزی ،جو درختوں کے قریب رہتے ہوئے ہی خوراک تلاش کرتے اور مشکل کی صورت میں دوبارہ درختوں کی طرف لوٹ جاتے ۔ تیسرے ہومونیڈز،جو بن مانسواں میں سب سے کمزور اور سست تھے۔ محدود وسائل کی وجہ سے انھیں جنگل کی دوڑ سے ہی باہر ہونا پڑا اور کھلے میدان اور سبزہ دارواں کی طرف منتقل ہونا پڑا ، جہاں انھیں خوراک کی تلاش میں لمبے لمبے فاصلہ طے کرنے پڑتے ۔اس عمل نے ان کا طرز زندگی ہی بدل کر رکھ دیا اور یہیں سے انسانوں کے ان اجداد کا براہ راست ماحول سے تعلق شروع ہوا۔ انھیں اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے گنجائشیں نکالنی تھیں۔ اس میں سب سے پہلے ہاتھ کے استعمال نے شعور کو ترقی بخشی ،کیونکہ میدانوں میں بقاء کو قائم رکھنے کے لیے اوزار ضروری تھے ۔اس لیے اوزار کو پکڑنے کے لیے ہاتھ نے ترقی کرنا شروع کی ۔ماہرین کے مطابق ہاتھ کا دماغ اور باقی جسمانی اعضاء سے گہرا تعلق ہے اور ہاتھ کی ترقی سے انگوٹھا انگلیوں کی مخالف سمت میں آیا ،جس سے اوزار پکڑنے میں آسانی ہوئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ افقی طور پر سیدھا کھڑا ہونا تاکہ دور تک دیکھا جا سکے ۔خوراک کے حصول اور دشمن سے مقابلہ کے لیے ان تمام تر چیزوں کا ہونا ضرورت سے جڑا تھا ۔ارتقاء کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ ضرورت سے جڑا ہوا عمل تھا ،تاکہ میدانی سبزہ زاروں میں آزادانہ طور پر حرکت کی جا سکے ۔ شعور کا دماغ میں ترقی پذیر ہونا فیصلہ سازی سے جڑا تھا کہ اس نے ماحول کے ساتھ براہ راست تعلق میں نہ صرف اوزار استعمال کیے ،بلکہ تخلیق کیے تاکہ وجود کو قائم رکھنے کے لیے گنجائشیں قائم کی جائیں۔یہاں سے شعور میں معیاری جستیں لگنا شروع ہوئیں اور ہمارے اجداد نے ماحول کے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق نمٹنا شروع کیا۔ یہی وہ مادی پہلو ہیں جنہوں نے انسان کو براہ راست ماحول کے ساتھ جوڑ دیا اور باقی تمام نسلوں کی نسبت انسان نے بقاء کی جدوجہد میں شعور سے گہرا تعلق قائم کیا ،جسے Cognitive Revolution کے نام سے جانا جاتا ہے جو ستر ہزار سال پہلے اس ارتقائی عمل سے پیدا ہوا۔
اب اگر ہم ماحول اور انسان کے درمیان تعلق کے اہم نقطہ نظر دیکھیں جو ان کے براہ راست تعلق کی وضاحت کرتے ہیں ،تاکہ ماحول اور انسان کا مادی رویہ واضح کیا جا سکے۔
(Environmental Determinism): یہ پہلا اور ابتدائی نظریہ ہے ،جو انسان اور ماحول کے تعلق کی وضاحت کرتا ہے۔ اس خیال کے مطابق انسان ماحول کے عمل پر انحصار کرتاہے ،یعنی ماحول کے تابع ہے اور ماحول ہی انسانی خیال،رویہ اور فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔انسان کا فطری ماحول کے علاوہ اپنا کوئی وجود نہیں ہے۔
(Environmental Possiblism):یہ دوسرا اور اہم نظریہ ہے ،جو انسان کے ارتقائی عمل سے شعور کی طرف منتقلی کے بعد دلائل سے وجود میں آیا ہے ۔اس نظریہ کے مطابق انسان نے ارتقاء کے نتیجہ میں ماحول کو درست بنیادوں پر سمجھا ہے اور جدید ذرائع پیداوار سے ماحول کے اثر کو خود پر سے ختم کیا ہے ،یعنی ماحول میں گنجائش نکال کر اس کے طریقہ کار کو سمجھ رہا ہے ،جس سے اب وہ آزادانہ طور پر ماحول کو اپنے طریقہ کار سے استعمال کر سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے دونوں نظریات کو دیکھا اور یہ بھی کہ یہ دونوں نظریات ماحول اور انسان کے براہ راست تعلق کی اپنے اپنے طریقہ سے وضاحت کرتے ہیں۔ اب ہم دونوں کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ نہ ہی انسان مکمل طور پر فطری ماحول پر انحصار کرتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر فطری ماحول کے طریقہ کار سے باہرہے۔ انسان اور ماحول ایک دوسرے سے جڑے ہیں ،یعنی انسان ماحول کے طریقہ کار کو مسلسل سمجھ کر اس میں زیادہ سے زیادہ گنجائشیں نکال رہا ہے ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فطرت کی کوئی حد بندی نہیں ہے ۔اس لیے فطری ماحول بھی اس پہلو میں دیکھیں تو گہرا معلوم ہوتا ہے اور انسان اسے مسلسل سمجھ کر زیادہ سے زیادہ گنجائشیں نکال رہا ہے۔ یہ ایک عمل ہے جو چلتا رہے گا ۔اس لیے یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے رہیں گے ۔
پیچیدگیاں
جیسا کہ ہم نے ماحول اور انسان کے درمیان موجود براہ راست تعلق کا تجزیہ کیا اور اس براہ راست تعلق کی وجوہات پر نظر ڈالی ۔اب ہم اس میں موجود پیچیدگیوں کا بھی تجزیہ کریں گے ، تاکہ اس چیز کی وضاحت کی جا سکے کہ کیوں ماحول اور انسان کے براہ راست تعلق میں پیچیدگیاں موجود ہیں؟ آخر کیوں ماحولیات کا مسئلہ اتنی شدت اختیار کر گیا ہے اور تمام انسان اور باقی حیات اس کے ساتھ ساتھ تمام زمین پر چلنے والے عوامل اب خطرے کے دہانے پر کھڑے ہیں ؟ آخر کیوں ماحول اب باقی تمام مسائل کی نسبت سب سے اول اور ضروری شکل اختیار کر گیا ہے؟ آخر اس کا حل کیا ہے؟
سب سے پہلے ماحول اور انسان کے تعلق میں موجود پیچیدگیوں سے مراد انسان کی ماحول پر غیر ضروری سرگرمیاں ہیں ،جو ان کے مادی تعلق کو توڑ رہی ہیں۔ یعنی انسان اگر ماحول پر غیر مادی طریقہ(بغیر ماحول کو درست بنیادوں پر سمجھے) عمل پیرا ہو رہا ہے تو اس کے جواب میں ماحول بھی اسی طریقہ کار سے ردعمل ظاہر کر رہا ہے جس کی وجہ سے یہ تمام تر ماحولیاتی مسائل ہمیں درپیش ہیں۔
اس کی شروعات بڑے پیمانے پر صنعتی انقلاب کے بعد سے ہوئی ،جب صنعت کاری کے نتیجے میں انسان نے چاروں سفیئرز سے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ یعنی خام مال سے ملوں،فیکٹریوں،پیداواری پلانٹس وغیرہ میں اشیاء کی پیداوار شروع کی، جس سے ان صنعتی شعبوں سے خارج ہونے والے مواد نے ان سفیئرزمیں بنیادی تبدیلیوں کو جنم دیا۔ اس میں مسئلہ صنعت کاری سے جڑا نہیں ہے ،بلکہ اسے چلانے سے جڑا ہے ۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام ایک غیر فطری طریقہ کار سے چلنے والا نظام ہے ،یعنی براہ راست فطری عمل کو دیکھتے ہوئے اس میں کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں ہے اور منافع اور شرح منافع کی بنیاد پر پیداوار کرتا ہے ۔جیسے جیسے منافع کی غرض سے صنعت کاری بڑھتی گئی اس نے ماحولیات میں بڑی تبدیلیاں پیدا کر دیں۔ اب سرمایہ دارانہ نظام سامراجیت کی شکل اختیار کر گیا ہے ،یعنی چند ملٹی نیشنل کمپنیاں جو پورے نظام پر حاوی ہیں اوربے دریغ ماحولیات کا استحصال کر رہی ہیں ۔جیسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ انسان اور ماحول ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔اگر انسان غیر مادی طریقہ کار سے ماحول کو چھیڑے گا تو اس کے نتیجہ میں ماحول بھی اس پر اسی طرح کی بے ہنگم تبدیلیاں رونما کرے گا ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی سامراجی شکل نے اب انسانوں اور باقی حیات کا وجود خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ اگر ان سفیئرز میں ہونے والی بے ہنگم تبدیلیوں کو دیکھیں تواٹماسفیئر میں گلوبل وارمنگ گرین ہاؤس گیسوں کے زیادہ ہونے کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے۔ ان گیسوں کا بنیادی کام سورج سے آنے والی شمسی گرمی کو جذب کر کے زمین کے درجہ حرارت کو حیات اور زمین پر چلنے والے عوامل کے وجود کو برقرار رکھنے کے مطابق متوازن کرنا ہے ،اور سورج سے آنے والی غیر محفوظ شعاعوں کو بھی زمین کی فصا میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ ان گیسوں میں بڑا کردار کاربن کا اخراج ہے ،جس کا بڑا حصہ توانائی کے شعبہ سے جڑا ہے ،جن پر 7 بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کے علاوہ باقی گیسیں بھی مختلف دیگر شعبہ جات زندگی میں غیر ضروری استعمال اور منافع خوری کے نتیجہ میں بڑھی ہیں۔گلوبل وارمنگ نے موسمیاتی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے جس نے زمین کا درجہ حرارت کچھ ڈیٹا سٹس کے مطابق 1.1 یا 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا دیا ہے ۔صنعتی انقلاب سے پہلے جو طوفان 50 سال کے بعد آتے تھے ،اب وہ 10 سال کے بعد آ رہے ہیں ۔آنے والے عرصہ میں یہ درجہ حرارت 1.5 ڈگری تک پہنچ جائے گا ،جس سے ہر پانچ سال بعد طوفان آئیں گے اور 2 ڈگری تک بڑھ جانے پر ہر سال طوفان آئیں گے ۔یہاں سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب وجود خاتمے کے آخری لمحات پر پہنچ چکا ہے۔
اس کے بعد اگر ہائیڈروسفیئر کو دیکھیں تو انھی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں زمین کے زیادہ گرم ہونے سے بے دریغ بارشیں ہو رہی ہیں جو سیلاب کی وجہ بن رہی ہیں ۔بے ہنگم صنعت کاری سے نکلنے والا زہریلا مواد پانی کی نظر کیا جاتا ہے ، وہ آبی حیات کی نسلوں کو ختم کر رہا ہے ۔ اگر انسانوں،جانوروں اور پودوں کی بات کی جائے تو ایک سائیکل سے گزر کر یہی پانی ہمارے وجود کو بھی برقرار رکھتا ہے ،جو اب زہریلا بنتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں گلیشیرز کے پگھلاؤ کو تیزی سے بڑھا رہی ہیں ،جس سے سطح سمندر میں بھی 8 انچ تک اضافہ ہوا ہے ۔ اس وجہ سے خشکی کے بہت سارے حصے زیر آب آنے کا خطرہ ہے۔ یوں انسانی جانیں خطرے میں ہیں اور نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
اب اگر ہم لیتھو سفیئر کو دیکھیں ،جہاں ہم تمام انسانوں اور باقی حیات کی نسلیں آباد ہیں ، جنگلات کے کٹاؤ سے اب تیزی سے آکسیجن سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔ جنگلات ہی آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور زمین کے درجہ حرارت اور ایکو سسٹم کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم ہیں۔ جنگلات کا کٹاؤ کر کے انھیں شہروں میں تبدیل کرنا اور جنگلات کا استحصال کر کے صنعت کاری کو پروان چڑھانا تمام حیات کے وجود کو ختم کرنے پر ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کا استعمال جو ایک منافع بخش کاروبار ہے ،تاکہ کم لاگت سے زیادہ منافع کمایا جائے ،ایک اور بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے جو خشکی کو ہی نہیں بلکہ فضا اور پانی کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔ بنیادی طور پر پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو گلنے سڑنے میں دہائیوں کا وقت لگا دیتا ہے ،جس کی وجہ سے یہ آلودگی کا ایک بڑا موجب ہے ۔اگر آج تک کی انسان کی استعمال شدہ پلاسٹک کو دیکھے تو زمین سے سورج کے فاصلہ کے نصف حصہ تک مینار بنایا جا سکتا ہے ۔ اس پلاسٹک کا ابھی تک صرف 7 فیصد ہی ری سائیکل ہوا ہے ۔چونکہ یہ ایک کم منافع بخش کاروبار ہے اس لیے اسے نظرانداز کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کان کنی زمین کی زرخیزی کو متاثر کر رہی ہے اور زراعت کے شعبہ میں غیر مناسب مواد بھی زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس کے بعد اب اگر ہم تمام جانداروں کے وجود کے زون یعنی بائیوسفیئر کو دیکھیں، تو یہ تمام جانداروں جو جنگل،آب،صحرا،گھاس کے میدان،پہاڑ اور جدید انسانوں کی بستیوں پر مشتمل ہیں ۔ ہم نے دیکھا کہ زمین کے باقی سفیئرزپر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بائیو سفیئراب ختم ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے ۔کئی نسلیں اور پودے معدوم ہو چکے ہیں اور باقیوں کا انجام بھی اب قریب ہے۔انسان جو اسی بائیوسفیئر کا حصہ ہے ،منافع کی حوس، غیر منصوبہ بند معیشت اور طبقاتی سماج کی غیر مادی بنیادوں کے چلتے ان تمام تر مسائل کا ذمہ دار ہے ۔بنیادی طور پر دیکھا جائے تو ذمہ دار چند انسان ہیں ،جن کے ہاتھ میں اس غیر منصوبہ بند نظام کی لگام ہے ،لیکن قصور وار تمام انسانوں کو بلاوجہ ٹھہرایا جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ اب وجود خطرے میں ہے ۔اس لیے ماحول سب سے بڑا سوال بن کر کھڑا ہوا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام اس قابل ہی نہیں کہ ماحولیات کا مسئلہ حل کر سکے ۔کیونکہ ہر سال 90 لاکھ لوگ صرف خوراک نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں ۔دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی بنیادی زندہ رہنے کی سہولیات سے ہی محروم ہے۔ کئی انسان ابھی بھی جنگل کی 2 لاکھ سال پرانی زندگی گزار رہے ہیں ۔ایک طرف انسان مارس پر زندگی بسانے کا سوچ رہا ہے تو دوسری طرف انسان اپنے ارتقائی اجداد والی زندگی گزار رہے ہیں ۔سائنس،ٹیکنالوجی اور آرٹ وغیرہ یعنی درست بنیادوں پر علمی رسائی صرف ایک خاص طبقہ تک محدود ہے۔جدید سے جدید علاج موجود تو ہے لیکن صرف بالادست طبقہ کے لیے ۔دنیا کے دس امیر ترین لوگوں کے پاس دنیا کی آدھے سے زیادہ دولت ہے ۔یہ ہیں اس طبقاتی نظام کے اندر موجود تضادات جو اس کے غیر مادی رویہ کو واضع کرتے ہیں ۔اگر ہم تفصیل سے مزید ان تضادات کو دیکھنا شروع کریں تو نہ ختم ہونے والی فہرست بن جائے گی ۔ اس نظام کی بنیاد طبقاتی کشمکش سے جڑی ہے ،جہاں ایک سرمایہ دار/حکمران طبقہ ہے اور دوسرا محنت کش/مزدور طبقہ ۔ دونوں کے درمیان کلاس کی بنیاد پر تضاد موجود ہے ۔ ہر ضرورت سے جڑی چیز پر حکمران طبقہ کی بالادستی ہے ۔اس لیے مزدور طبقہ محرومی کی شکل میں ہر چیز کی قلت کا اظہار تنقیدی بنیادوں پر کرتا ہے اور ان مادی ضروریات کی تسکین کے لیے طبقاتی جدوجہد سے شعوری اور لا شعوری طور پر جڑا ہے۔
جیسا کہ ہم نے تفصیل سے دیکھا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے آغاز سے ہی صرف منافع اور شرح منافع کی بنیاد پر اپنا اظہار کیا ہے ۔اس لیے اس کا فطری طریقہ کار سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ بس پرانے طبقاتی نظاموں کا منظم جدید اظہار ہے ۔اس لیے جو نظام اپنے وجود میں ہی غیر فطری اظہار رکھتا ہو اور جس کے غیر منصوبہ بند رویہ نے ماحول اور انسان دونوں کو برباد کر دیا ہو ،وہ نظام کبھی بھی ماحول کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی ماحولیات کے مسئلہ کو اس نظام میں ٹھیک کرنے کی دلیل دیتا ہے تو اس نظام کے طبقاتی کردار کو دیکھتے ہوئے یہ الٹ دلیل ہے ۔
اس غیر فطری نظام کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ماحولیاتی اور دیگر مادی مسائل کا حل دیکھیں تو اس نظام کے تنقیدی جائزہ کو سر کے بل کھڑا کرنے میں ہی اس کا جواب چھپا ہے ۔یعنی ایک غیر طبقاتی سماج جس کی بنیاد منافع سے نہیں بلکہ ضرورت سے جڑی ہو ،جو علم و فکر کی رسائی صرف ایک خاص طبقہ تک نہیں بلکہ ہر انسان تک پہنچائے اور فیصلہ سازی کا اختیار حکمران طبقہ سے چھین کر عام انسان کے اختیار میں دے،جو فطری طریقہ کار سے اپنا اظہار کرے اور سماج کی منصوبہ بندی یعنی(معیشت،سیاست وغیرہ) بھی فطری طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے کرے،جو انسان کو اس قابل بنائے کہ وہ تمام تعصبات (جو طبقاتی کشمکش کی وجہ سے اپنا اظہار رکھتے ہیں) سے آزاد ہو کر جدید انسان کے طور پر نئے سرے سے انسانیت کی ابتدا کرے۔ اس آزاد انسانی سماج میں ماحولیات کا مسئلہ باغبانی کی مانند ہو گا، کیونکہ منافع کی جگہ ضرورت کی بنیادوں پر ماحول کو اہمیت حاصل ہو گی اور تمام تر وسائل آزادانہ اظہار کریں گے ،جس سے براہ راست فطری طریقہ سے مسائل کا حل کیا جائے گا ۔انسان اپنی آزاد حیثیت ہونے سے تسخیر کائنات سے براہ راست جڑ جائے گا ۔یہ نظام بیگانگی کا خاتمہ کر کے اجتماعی بنیادوں پر انسان کو ایک دوسرے سے جوڑے گا، یعنی کمیون کی شکل میں اپنا اظہار کرے گا جسے کمیونزم کہتے ہیں ۔