فاروق سلہریا
کچھ عرصہ قبل،ایک محفل میں چند روشن خیال احباب اس بات پر ناراض دکھائی دئیے کہ ہمارے ہاں نصابی کتابوں میں ہی نہیں، سائنس کے اکثر اساتذہ بھی بضد نظر آتے ہیں کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاغلط ہے۔
اسی طرح، ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ بہت سے بظاہر پڑھے لکھے لوگ زمین کے گول ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ زمین کے گول ہونے پر راقم نے ایک مرتبہ پہلے بھی ان صفحات پر بات کی تھی۔
محفل میں انہی موضوعات پر بات ہو رہی تھی کہ ڈارون اور گیلیلیو کے ایک ناقد نے سوال اٹھایا: ان دونوں کی سوچ سے عدم اتفاق سے فرق ہی کیا پڑتا ہے؟
مجھے یہ اعتراض سن کر ایک شعر یاد آیا:
مری بے زباں آنکھوں سے گرے ہیں چند قطرے
وہ سمجھ سکیں تو آنسو نہ سمجھ سکیں تو پانی
کرسٹوفر کولمبس کے بارے میں ہمیں بچپن میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ہندوستان پہنچنا چاہتا تھا لیکن امریکہ کی طرف جا نکلا۔ یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ کولمبس نے جو سفر کی منصوبہ بندی کی تھی اس کی بنیاد یہ سائنسی نقطہ تھا کہ زمین گول ہے۔
بات یوں ہے کہ کولمبس سے قبل بھی یورپ کے مہم جو،جنوبی ایشیا اورمشرقی ایشیا کی جانب جانے کی کوشش کر چکے تھے۔ ان کے سفر نامے اس بات کا ثبوت تھے کہ جس سمندری راستے سے وہ ایشیا جانے کی کوشش کر تے ہیں،وہ بہت لمبا ہے۔
کولمبس نے اس حقیقت سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر روایتی سمندری راستے سے مشرقی ایشیا دور پڑتا ہے تو زمین کے گول ہونے کی صورت میں متبادل راستہ سے نزدیک پڑے گا (گلوب کو سامنے رکھ کر یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بات با آ سانی سمجھ آ جائے گی)۔
دوم،کولمبس کی دلیل تھی کہ اگر زمین گول ہے تو اس کا بحری بیڑا (جو اس زمانے لے لحاظ سے بہت بڑا منصوبہ تھا)گم نہیں ہوگا، وہ گھوم کر واپس پرتگال پہنچ جائے گا۔
کولمبس کے اس سفر سے کلونیل عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ کلونیل دور مختلف شکلوں میں آج بھی جاری ہے۔ بس ’یہ‘فرق پڑتا ہے گیلیلیو اور ڈارون کو جہالت کے نشے میں گالیاں دینے سے!
وہ سمجھ سکیں تو آنسو نہ سمجھ سکیں تو پانی
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔