اسرار اسحاق مینگل
ایک گھر تھا، گھر تھا یا کوئی جگہ تھی، خیر کوئی بھی چار دیواری سمجھ لو جہاں انسان رہتے تھے۔ انسان یعنی انسان۔ کوئی چھوٹا، بڑا، مرد اور عورت نہیں۔ ان میں تو ویسے بھی وجود کا فرق ہوتا ہے، تجسیم مختلف ہوتی ہے، رنگ مختلف ہوتا ہے۔ خیر وہ سارے انسان جذبات رکھتے تھے۔ جذبات سب کے پاس ایک ہی جیسے تھے۔ مطلب خوشی اور غم، محبت اور نفرت، بھوک اور پیاس، بیزاری اور اکتاہٹ، غصہ، صبر اور شکر وغیرہ وغیرہ۔ سب کے پاس انکی یکساں تقسیم تھی۔ ہاں البتہ اظہار کی مقدار میں کسی حد تک اونچ نیچ تھی۔ یعنی کوئی ان جذبات کوزذیادہ دکھا سکتا تھا تو کوئی کم اور کوئی تو بالکل بھی نہیں۔ لیکن تھے سارے انسان ہی۔ انسان کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں نا ساری چیزیں۔ یعنی خوش انسان ہوتا ہے اور خوشی انسان کو دینی ہوتی ہے۔ غم میں انسان ہوتا ہے اور غم سے انسان کو نکالنا ہوتا ہے۔ محبت انسان کو ہوتی ہے اور محبت انسان سے کرنی پڑتی ہے۔ اس سب میں بڑے، چھوٹے، مرد اور عورت کو گھسیٹا نہیں جاتا۔
خیر تو وہ گھر والے ٹھیک ٹھیک رہتے تھے۔ تب تک جب تک وہ ایک دوسرے کو انسان سمجھتے تھے۔ بڑا پیارا ماحول رہتا تھا۔ سب ایک دوسرے کی خوشی ڈھونڈتے، ایک دوسرے کا دکھ دور کرتے، ایک دوسرے سے محبت کرتے ایک دوسرے کا احساس کرتے۔ان میں کوئی بڑا،چھوٹا،مرد اور عورت نہیں تھا سب انسان تھے۔
ایک دن ان کے گھر کچھ اجنبی مہمان بن کے آئے۔ مہمان تو رحمت ہوتے ہیں لیکن زیادہ دن ٹھہر جائیں تو وہ گھر کے لوگ ہی سمجھے جاتے ہیں۔انکا گھر میں پورا پورا حصہ ہوتا ہے۔
تو اجنبی آئے جن کے عجیب نام تھے۔ جیسے وہم، بدگمانی، انا، رعب، دبدبہ، کنٹرول، غصہ، چڑچڑاپن، تذلیل، تحقیر، مداخلت، بلیک میلنگ وغیرہ وغیرہ۔ کتنے عجیب نام ہیں نا؟ اتنے سارے تھے میں نام بھی بھول گیا۔ خیر یہ آئے تو اجنبیوں کے بارے میں سوچا جانے لگا۔ کچھ انسانوں نے سوچا کہ یہ مہمان ہیں تو ہم ان کی خدمت کرتے ہیں اور ان کو یہیں رکھ لیتے ہیں۔ کچھ نے کہا نہیں یہ اجنبی ہیں انکو رخصت کرو کیا رکھے رکھنا؟
یہاں سے دو گروہ یعنی دو گروپ بن گئے۔اب انسان بڑوں، چھوٹوں، مردوں اور عورتوں میں تقسیم ہو گئے۔ بڑوں نے کہا ‘نہیں بھئی‘ ان بیچاروں کو بھی تو کہیں جگہ چاہیے ہوگی رہنے کے لیے۔ ہم بھی ان نکالے ہوؤں کو نکالیں گے تو ان کی دل آزاری ہوگی۔ ہم ان کو اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ چھوٹوں نے مخالفت کی، لیکن بڑوں کا گروپ مضبوط تھا،سو وہ جیت گئے اور چھوٹے ہار گئے۔ اور آخر کار ان اجنبیوں کے لیے اچھے اور پکے کمرے تیار کیے گئے جن میں ان کو رکھا جانے لگا۔ انکی اتنی خدمت ہوئی کہ وہ موٹے اور تازے ہو گئے۔ اتنے موٹے کہ ہلانے سے بھی نہ ہلیں۔
اب گھر والوں کو احساس ہوا کہ ان کے آنے سے گھر میں انسانوں کی جگہ کم پڑ گئی۔ کوئی بڑا تو کوئی چھوٹا اور کوئی عورت تو کوئی مرد ہو گیا۔ یہ تو رحمت نہیں زحمت بن گئے۔ ان کو نکالو۔ لیکن وہ اتنے موٹے ہو گئے تھے کہ ہلتے بھی نہیں تھے۔ تو گھر والوں نے سوچا کہ سب انسانوں کو مل کر انہیں نکالنا ہوگا۔ لیکن انسان کم تھے اور بڑے چھوٹے زیادہ۔ انسان تو راضی تھے کہ ہم انہیں مل کے باہر نکالیں گے لیکن کہیں بڑے تو کہیں چھوٹے نہیں مانتے تھے۔
اسی بحث میں دروازے پر دستک ہوئی اور کہا گیا کہ موت نامی کوئی شخص ہے،جو زندگی کو لے کے جانا چاہتا ہے۔ اسے خبر ملی تھی کہ اس گھر میں زندگی بھی رہتی تھی جو کہ اس آئے روز کے بحث و تکرارسے تنگ آگئی تھی اور عذاب میں تھی۔وہ چاہتی تھی کہ کوئی اسے لے جائے،یا ان اجنبیوں کو۔ اس بات نے ان چھوٹوں اوربڑوں کو دو چار منٹ سوچنے پر مجبور کیا کہ یہاں تو زندگی بیچاری بھی رہتی تھی۔ہم تو اسے بھول ہی گئے تھے لیکن انہوں نے بس دو چار منٹ ہی سوچا۔
اجنبی تو خیر موٹے موٹے سے تھے اور انہیں انسان ہی نکال سکتے تھے۔ تو بڑوں اورچھوٹوں کو متحد ہو کر انسان بننا تھا،تاکہ اجنبیوں کو نکالا جاتا ورنہ زندگی تنگی اور ناخوشی کی حالت میں اس گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل جاتی۔ اب انسان بننے کا ایک ہی کلیہ یعنی ایک ہی فارمولا بچا تھا کہ خود کو انسان سمجھتے ہوئے دوسروں کو بھی انسان ہی سمجھا جائے اور آئندہ سے اجنبیوں کو گھر میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جائے۔ورنہ پھر سے انسان غائب ہوں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بھی انسان نہیں ملے گا۔
کہانی لمبی ہو رہی ہے مجھے اس کا اختتام نہیں مل رہا۔ شاید اس لیے کہ انسان ناپید ہوگئے ہیں اور مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں خود بھی انسان نہیں رہا بلکہ چھوٹا/بڑا بن گیا ہوں۔