مندرا نیئر
کرامت علی بہت کچھ تھے لیکن میرے لیے وہ ہمیشہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے میرے دادا کلدیپ نیئر کو اس گھر تک پہنچایا، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے اور میرے دادا کے درمیان رشتہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، یہ بہت گہرا اور اٹوٹ ہے، اور بہت سے رشتوں سے زیادہ مضبوط ہے۔
دوستی کے لیے بہت سے الفاظ ہیں۔ عربی میں بارہ الفاظ پائے جاتے ہیں۔ آپ مختلف نوع کی مندرجہ ذیل دوستی میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں:
ثقیب، ایک سچا دوست؛ سمیر، کوئی ایسا شخص جس کے ساتھ آپ بات چیت کرنا پسند کریں؛ زمیل، ایک جاننے والا۔
انگریزی میں صرف ایک ہے: اے بلانڈ فرینڈ (a bland friend)یعنی نرم خو دوست۔
ہندوستانی میں دوست کا ہی لفظ پایا جاتا ہے۔ یہ دوست اور بھائی کے بیچ کا ایک رشتہ ہے جس کا اظہار ہندی فلمی گانے،جسے مانا ڈے نے گایا، ’یاری ہے ایمان‘ سے لے کر شعلے کے ترانے ’یہ دوستی ہم کبھی نہیں چھوڑیں گے‘کے درمیان کی کوئی چیز کہا جا سکتا ہے۔
’دوست‘
لہٰذا میں مزدور رہنما، امن کے کارکن، انقلابی، موسیقی سے محبت کرنے والے کرامت علی اور صحافی، امن کے کارکن اور خواب دیکھنے والے ساتھی،میرے دادا، کلدیپ نیئرکے درمیان تعلق کو بیان کرنے کے لیے ایک لفظ تلاش کرنے کی جدوجہد کر رہی ہوں، اور ساتھ ہی کرامت صاحب سے میرے تعلق کے بارے میں بھی کوئی اصطلاح ڈھونڈھ رہی ہوں۔
نام کے بغیر اس رشتے میں ایک ایسا تعلق ہے جو گہرا اور اٹوٹ ہے، اور بہت سے رشتوں سے زیادہ مضبوط ہے۔
2018میں جب میری دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی تو کرامت صاحب نے کہا کہ ’انہوں (کلدیپ نیئر) نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مجھے بتایا کہ نرملا دیدی کی طرح، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی راکھ کو دونوں طرف بہایا جائے۔‘وہ نرملا دیش پانڈے کا حوالہ دے رہے تھے، وہ ایک گاندھی وادی تھیں، جنہوں نے اپنی ساری زندگی امن کی وکالت میں گزاری۔ کرامت صاحب نے ان کی راکھ بھی دریائے سندھ پر بکھیری تھی۔
اپنی موت سے چند ہفتے قبل میرے دادا نے پاکستان اور انڈیاکی انگریزوں سے آزادی کی سالگرہ کے موقع پر موم بتیاں روشن کرنے کیلئے واہگہ بارڈر کا اپنا سالانہ دورہ ترک کر دیا تھا۔ ان کی ایک ہسپتال میں موت واقع ہو گئی تھی۔
کرامت علی نے مجھے کہا’تو، میں اسے واپس لے جاؤں گا۔‘
گویا اتنی سی بات تھی۔ 2008 میں کرامت صاحب انڈیاآئے تھے اور نرملا دیدی کی راکھ کا کچھ حصہ اپنے ساتھ واپس پاکستان لے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے ایک وفد کی قیادت کی جس نے سندھ میں سکھر میں سادھو بیلہ مندر کے قریب گاندھی وادی اور امن کی کارکن نرملا دیش پانڈے کی راکھ کو دریائے سندھ میں بہایا۔
۔۔۔لیکن 2018 تک چیزیں مختلف ہو چکی تھیں۔ 2015 سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک زبردست تناو آ چکا تھا۔تناو میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ پاکستانیوں کے لیے ویزے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ خطوط تک نہیں پہنچ پائے۔ میرے دادا کی راکھ کا ایک چھوٹا سا حصہ پاکستان بھیجنے کا راستہ تلاش کرنا ناممکن سا لگتا تھا۔
یہ جانے بغیر کہ میرے دادا نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا،ان کی موت کے دکھ سے توجہ ہٹانے کیلئے میں نے یہ مشکل کام کرنے کی ٹھان لی تھی۔
گویا کوئی جادو ہوا ہو،کرامت صاحب ایک نجات دہندہ بن کر نمودار ہوئے تھے، گویا ماہی گیروں کی کانفرنس میں شرکت کی بجائے ان کے سفر کا یہی مقصد تھا۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ چاہیں تو ہم صبح راکھ ان کے پاس پہنچا دیں، کیونکہ زیادہ تر لوگ اپنے کمرے میں راکھ کے ساتھ رات نہیں گزارنا چاہتے۔ کرامت صاحب نے کہا کہ وہ اس راکھ کی صحبت میں رات گزارنا چاہئیں گے۔ انہوں نے میرے دادا کی راکھ ایک رات اپنے کمرے میں ہی رکھی اور اس وقت تک ساتھ رکھی، جب تک وہ پاکستان واپس نہیں پہنچ گئے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ انہیں اور بھی بہت سے کام ہونگے۔
میرے دادا کا واہگہ کا سفر ایک ایسی کہانی ہے جو میں نے کرامت صاحب سے کئی بار سنی ہے۔ جیسے ہی میں لکھ رہی ہوں، کہانی سناتی ہوئی ان کی تیز آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے،جس طرح انہوں نے اس وقت سنائی تھی جب ہم نے کلدیپ نیئر کی راکھ بہائی تھی۔
واہگہ بارڈر کراسنگ پر انہوں نے امیگریشن آفیسر کی میز پر کلش رکھ دیا۔ جب افسر نے ان سے پوچھا کہ کنٹینر میں کیا ہے اور کیا ان کے پاس اجازت ہے تو انہوں نے جواب دیا:”یہ کلدیپ نیئر صاحب ہیں۔ اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ انہیں ویزا کی ضرورت نہیں ہے۔“
اس کے ساتھ ہی وہ کاؤنٹر سے گزر کر دوسری طرف چلے گئے۔
ایک خواب
کرامت صاحب میں یہ صلاحیت تھی کہ انہوں نے نرمی، مزاح، درد مندی اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ ناممکن کو ممکن کر دکھایا، ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔
انہوں نے جوانی میں ہی جدوجہد شروع کی۔ 1945میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ وہ صرف17سال کے تھے، جب انہوں نے طالبعلمی کی سیاست میں اپنے دانت تڑوائے تھے۔ یہ 1962 کی بات ہے اور جنرل ایوب خان کی حکومت نے طلبہ یونینوں پر پابندی لگا دی تھی۔ کراچی کے طلبہ بشمول معراج محمد خان اور سید علی مختار رضوی کو نکال دیا گیا اور انہوں نے پناہ کے لیے ملتان کا رخ کیا۔
کرامت صاحب نے طلبہ کو ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت میں کمشنر ملتان کے دفتر تک پہنچایا اور وہاں دھرنا دیا۔ کمشنر نے ان سے بات کی اور نکالے گئے طلبہ کو ملتان میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس طرح کرامت صاحب نے پہلی جیب کا مزہ چکھا۔
20سال بعد انہوں نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائیلر) کی بنیاد رکھی۔
ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے رواں ہفتے کرامت صاحب کی یاد میں آرٹس کونسل آف پاکستان کی جانب سے منعقدہ ایک اجلاس میں کہاکہ ”ان دنوں پائیلر ان کے لیے ایک خواب تھا، جسے وہ اپنے بریف کیس میں لے گئے تھے۔“
انہوں نے کہا کہ ”جب وہ پائیلر کے قیام کے لیے فنڈ حاصل کر رہے تھے، تو تنظیم کے لوگ،جو چیک لے کر آئے تھے، انہوں نے ان سے کہا کہ ڈونرز کو ان کمیونسٹ رہنماؤں سے مسئلہ ہے،جن کے وہ]کرامت علی[ پرستار ہیں۔ انہوں نے ان سے رقم لینے کیلئے ان سے اتفاق کرنے کی بجائے انہیں اپنے پیسے واپس لینے کو کہا۔ وہ ایماندار تھے اور اپنے عقائد اور اصولوں سے الگ ہونے کو تیار نہیں تھے۔“
ان کا گھر کتابوں سے بھرا ہوا تھا، وہ خوب رقص کرتے تھے اور شاعری کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی رومانوی پہلو کو اپنے انقلابی پہلو پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدر احمد شاہ نے تعزیتی اجلاس میں کہا کہ ان کے پاس قائل کرنے اور دلیری، صبر و تحمل اور بدترین مخالفوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک ہی میز پر بیٹھنے کی طاقت بھی تھی۔
جب رانا پلازہ، بنگلہ دیش اور کراچی میں گارمنٹس فیکٹریوں میں مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا، تو کرامت صاحب نے ریاستوں، کارپوریشنوں اور بزنس ایجنٹوں کا احتساب کرنے کے لیے ایک پہل کی۔
ایک بھارتی اخبار میں کارکن نوشرن کور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاکہ ”انہوں نے مزدور خاندانوں کے لیے معاوضے کے لیے ایک کیس بنایا۔اس کام نے بہت سے اقدامات کی راہ ہموار کی۔“
کرامت صاحب جواد احمد کے گانے ’سن لو کے ہم مزدور ہیں‘ کے محرک تھے۔
جب 2019 کے اوائل میں کرتار پور ویزا فری کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھنے والے انڈیا کے ایک وفد کے حصہ کے طور پر پاکستان جانے کا ارادہ کر رہی تھی،تو میں نے کرامت صاحب کو فون کر کے پوچھاکہ کیا میں ان کیلئے دہلی سے کچھ لا سکتی ہوں۔ انہوں نے اپنے دوست کے لیے ہومیو پیتھک دوائیاں مانگیں۔ یہ ایک ایسی دوا تھی جس نے کرامت صاحب کے لیے حیرت انگیز کام کیا تھا، اور کراچی میں دستیاب نہیں تھی۔
کرامت صاحب کی نظر میں ہر راستہ دوستی کی طرف جاتا تھا۔
(مندیرا نیئر ایک صحافی ہیں جن کا جنوب ایشیا بھر میں دو دہائیوں پرمبنی،رپورٹنگ کا وسیع تجربہ ہے۔ حال ہی میں دہلی میں واقع دی ویک میں بیورو کی ڈپٹی چیف تھیں۔ چارلس والیس اسکالر ہیں۔ اس سے قبل وہ دی ہندو اور دی ٹیلی گراف کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ ساؤتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک (Sapan) کی بانی رکن ہیں۔)
بشکریہ: دی وائر۔ ترجمہ: حارث قدیر،فاروق سلہریا