حارث قدیر
صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے خلاف جمعہ کے روز نکالی جانے والی ’امن ریلی‘ میں فائرنگ اور بھگدڑ مچنے کی وجہ سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
اس امن مارچ میں لکی مروت، کرک اور شمالی وزیرستان سمیت بنوں کے ہزاروں افراد شریک تھے۔ اس موقع پر تمام کاروباری مراکز بھی بند تھے۔ مظاہرین جب بنوں کینٹ کے سامنے پہنچے تو فائرنگ اور بھگدڑ کے واقعات پیش آئے۔
مظاہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ بنوں کینٹ سے مظاہرین پر سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی ہے۔ تاہم سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے کینٹ پر پتھراؤ کیا گیا، جس کے جواب میں فائرنگ کی گئی۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق ایک شخص کی ہلاکت ہوئی ہے، جبکہ 23سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں کچھ کو بھگدڑ مچنے سے چوٹیں آئی ہیں، جبکہ کچھ کو گولیاں لگی ہوئی ہیں۔
بنوں میں موبائل سروس جمعہ کی صبح سے معطل ہے۔ قومی میڈیاپر بھی اس واقعے سے متعلق کوریج پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ بنوں میں پیر کو دہشت گردی کے ایک واقعہ میں 8سکیورٹی اہلکارمارے گئے، جبکہ جوابی کارروائی میں 10سے زیادہ دہشت گردوں کو بھی مارنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ ایک اور واقعہ میں پیر اور منگل کی درمیانی شب ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ایک بنیادی مرکز صحت پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں دو بچوں اور دو خواتین سمیت5افراد مارے گئے تھے۔
اس کے علاوہ بنوں میں دہشت گردوں کو کھلی عام سرگرمیاں کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے، جس کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور دہشت گردوں کی کھلے عام سرگرمیوں کے خلاف بنوں کی تاجر برادری نے جمعہ کو احتجاج کی کال دی تھی، جس میں مظاہرین سے سفید پرچم تھام کر احتجاج کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔
فائرنگ کے واقعہ کے بعد بنوں میں مظاہرین نے احتجاجی دھرنا دے دیا تھا۔ ترجمان صوبائی حکومت بیرسٹر سیف کے مطابق احتجاج کے منتظمین اور مقامی انتظامیہ کا ایک جرگہ ہوا ہے، جس میں حالات کو پرامن رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔ مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہو گئے ہیں، جبکہ آج ہفتے کو دوبارہ پر امن احتجاج کی کال بھی دی گئی ہے۔
ترجمان حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ مارچ پر فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ’اولسی پاخون‘کے نام سے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے خلاف خیبرپختونخوا میں احتجاج کیا گیا ہو۔ اس سے قبل جب سوات میں طالبان نے دوبارہ سرگرمیاں شروع کی تھیں تو وہاں بھی اسی نام سے احتجاجی تحریک شروع کی گئی تھی۔ حال ہی میں وفاقی حکومت کی جانب سے آپریشن کا اعلان کرنے کے بعد بھی اولسی پاخون اور پی ٹی ایم کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ مظاہرین ایک ہی وقت میں دہشت گردی اور حکومتی آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی ریاستی پالیسی کے تحت چلائی جاتی ہے۔ آپریشن کے نام پر عام پشتونوں کے گھر بار اجاڑے جاتے ہیں اور ان کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ دہشت گرد محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہو جاتے ہیں، یا پھر افغانستان چلے جاتے ہیں۔ دوبارہ ضرورت پڑنے پر وہ پھر متحرک ہو جاتے ہیں۔ یوں دہشت گردوں کی دہشت گردی اور ریاستی آپریشنوں کے ذریعے عام لوگ ہی مارے جاتے ہیں اور بے گھر ہوتے ہیں۔
اس لئے مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ ریاست طالبان کو اثاثوں کے طور پر استعمال کرنا بند کرے اور دہشت گردی کی ہر قسم کی پشت پناہی کو ختم کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے لوگوں کو پر امن طریقے سے زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔