فاروق طارق
آزادی مارچ بارے کافی کنفیوژن تھی کہ یہ دھرنا ہے یا ایک جلسہ۔ آج مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں اسے واضح کر دیا، ’’یہاں سے کوئی نہیں جائے گا۔۔۔ استعفی دینے کے لئے وزیراعظم کو دو دن کی مہلت دیتا ہوں۔ جن کو سنانا چاہتا ہوں وہ سن رہے ہیں۔ دو دن بعد بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے!‘‘ یوں مولانا نے چالاکی سے پشاور موڑ پر جلسے کے نام پر بغیر کسی نقصان کے اسلام آباد پہنچنے کا بندوبست کر لیا ہے۔
جس طرح عمران خان اور طاہر القادری کی جانب سے 2014ء میں اسلام آباد روانگی کے لئے مسلم لیگی حکومت کو پیپلز پارٹی نے گارنٹیاں دی تھیں کہ سب کچھ پرامن ہو گا، ایک خاص مقام سے آگے نہیں جائیں گے وغیرہ وغیرہ، بالکل اسی طرح اب یہ کام کسی اور نے نہیں خود عمران خان کی اپنی مذاکراتی ٹیم نے کیا ہے۔ ایک معاہدہ کر لیا کہ وہ ڈی چوک نہیں جائیں گے اور سہارہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا لیا۔ جیسے یہ خود ان اداروں کے احکامات پر من و عن عمل درآمد کرتے رہے ہیں۔ مگر اب وہ شاید پچھتا رہے ہوں گے۔
مولانا نے شرکا کے ڈی چوک پر جانے کا نعروں کے جواب میں کہا کہ دو دن بعد اگر استعفیٰ نہ آیا تو فیصلہ آپ کریں گے۔ یعنی جو معاہدہ ہوا تھا وہ تو اب ردی کی ٹوکری کا ایک پرزہ ہے۔ مولانا نے اپنے بندوں کو اسلام آباد لانا تھا وہ لے آیا۔ اب تو فیصلے اس معاہدے کی روشنی میں نہیں بلکہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ہی ہوں گے۔
حیران کن بات ہے کہ جس ’’آزادی مارچ‘‘ کا مکمل میڈیا بلیک آؤٹ کیا جا رہا تھا اسے آج تمام کمرشل میڈیا لائیو چلا رہا تھا۔ ریٹنگ کا بھی ایشو ہو گا اور شاید کچھ اور بھی۔ مولانا کی تقریر رجعتی خیالات سے مالا مال تھی۔ وہ کرتار پور بارڈر کھلنے پر بھی نالاں تھے اور ان کو مذھبی کارڈ کھیلنے کا طعنہ دینے والوں سے بھی ناراض تھے۔ خوب مذہبی لفاظی کی۔ اس ضمن میں دھمکی آمیز رویہ بھی اختیار کیا۔
پیچھے کھڑا بلاول اس بات پر شرمندگی کی مسکراہٹ بکھیر رہا تھا۔ کل تک اس مارچ میں شرکت نہ کرنے کے لئے مذہبی کارڈ کا حوالہ دینے والا بلاول بھٹو اب رحیم یار خان کے طے شدہ جلسے کو منسوخ کر کے ایک دن میں دوسری بار یہاں کھڑا اور تقریر کرتا نظر آیا۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ مولانا نے اس مارچ کے لئے ایک قابل ذکر تعداد کو موبلائز کر لیا ہے۔ اور یہ ایسا کرنے میں ناکام تھے۔ یہ ایک تاریخ کا ایک ایسا نیا موڑ ہے جو بورژوا پارٹیوں کے سیاسی دیوالیہ پن کو مکمل طور پر بے نقاب کر رہا ہے۔ اور جو پارٹی ڈیڑھ سال قبل سیاسی طور پر یتیم نظر آئی تھی وہ اب سیاست کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
ایک جانب تحریک انصاف حکومت ہے جو اس غلط فہمی کا شکار تھی کہ آنکھیں بند کر کے سامراجی اداروں کی شرائط کو ماننا اور ان کے بندوں کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنا شاید اس کے لئے ایک بڑی کامیابی کی گارنٹی ہے۔ ڈیڑھ سال میں یہ واضح ہو گیا کہ جس حکومت نے بھی ان سامراجی اداروں کے آگے سر جھکایا عوام کی رہی سہی حمایت سے بھی محروم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بے چارے عمران خان کو تاریخ نے ایک اور جھٹکا یہ دیا کہ ان جیسی پالیسیوں کو نافذ کرنے والی حکومتوں کے خلاف عالمی طور پر عوامی تحریکوں کا ایک نیا کامیاب دور شروع ہوا ہے اور حکمران استعفے دینے پر مجبور ہیں۔ آج مولانا کے جلسے میں بھی مقررین نے بار بار لبنان کا ذکر کیا۔
دوسری جانب اس مارچ سے قبل سرکاری اپوزیشن نے بار بار یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپوزیشن کرنے کے قابل ہی نہیں۔ مریم نواز گرفتاری سے قبل روزانہ کسی اہتمام کے بغیر ہی ہزاروں سے خطاب کرتی تھی، عوام ساری رات اس کی تقریر کا انتظار کرتے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ایک ریڈیکل بیانیہ اور عوام کی طاقت پر انحصار کا فارمولہ کام کر رہا ہے۔ مگر اس کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ کوئی بھی متاثر کن عوامی اجتماع نہ کر سکی۔
اگرچہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں کچھ بڑے اجتماعات کئے مگر وہ ابھی تک موجودہ حکومت بارے اپنی پالیسی واضح نہ کر سکی ہے۔ کبھی یہ صلح کی اور کبھی لڑائی کی حکمت عملی اختیار کرتی نظر آتی ہے۔
مولانا نے اب دو دن دئیے ہیں عمران خان کو مستعفی ہونے کے لئے۔ استعفیٰ تو ابھی دور کی بات ہے مگر یہ آزادی مارچ عمران کے غبارے سے ہوا نکالنے میں خوب مدد دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے غبارے سے اصل ہوا تو اس کی معاشی پالیسیوں نے نکالی ہے۔ یہ عوام میں بے حد نفرت کو جنم دے رہی ہیں۔ اس کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جب حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کا وزیر خزانہ تھا تو اس کے بعد 2013ء کے عام انتخابات میں پارٹی کو اپنی تاریخ کی سب سے بری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ اس مارچ میں لوگوں کی بھرپور شرکت جہاں مولانا کی تیاریوں کا نتیجہ ہے وہاں اس سلسلے میں معروضی حالات نے بھی بڑی مدد دی ہے۔ لوگ تنگ ہیں اس حکومت سے۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اس حکومت کے خلاف لوگوں کی چیخ و پکار سے۔
یہ دھرنا کتنی دیر چلے گا یہ تو کھل کر نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ واضح ہے کہ مولانا کا مارچ کچھ دکھا کر ہی جائے گا۔ حکومت اس مارچ کو بہت آسان لے رہی تھی۔ آج کی تقریر اور بھرپور شرکت کے بعد اب اسے سنجیدہ لیا جائے گا۔