لاہور(جدوجہد رپورٹ) ترکی میں اپوزیشن رہنماؤں اور اختلافی آوازوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ترک پولیس نے بدھ کے روز استنبول کے میئر امام اوغلو کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ ایک ایسے مقبول اپوزیشن رہنما ہیں،جنہیں ترک صدر رجب طیب اردگان کا مخالف صدارتی امیدوار بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق سرکاری انادولو ایجنسی نے کہا کہ امام اوغلو اور دیگر تقریباً100افراد کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ امام اوغلو کی اہلیہ نے بتایا کہ پولیس نے صبح سویرے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور میئر کو تقریباًساڑھے7بجے حراست میں لے لیا۔ حراست میں لیے گئے افراد میں امام اوغلوکے قریبی ساتھی مرات اونگون اور دو ضلعی میئر بھی شامل ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن قبل از وقت قومی انتخابات کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے درمیان گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات میں اردگان کی حکمران جماعت کو پہنچنے والے نقصان کے بعد کیا گیا ہے۔ حکومتی اہلکاروں کا اصرار ہے کہ عدالتیں آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں اور ان دعوؤں کو مسترد کرتی ہیں کہ اپوزیشن شخصیات کے خلاف قانونی کارروائیوں کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں۔
امام اوغلو کی گرفتاری کے مظاہروں کو روکنے کے لیے حکام نے استنبول کے اطراف کی کوئی سڑکیں بند کر دیں اور شہر یں چار دن کے لیے مظاہروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تاہم پابندی کے باوجود لوگ استنبول کے پولیس ہیڈکوارٹر میں جمع ہوئے۔ انہوں نے اپنے کندھوں پر میئر کے پوسٹر اور ان کی تصویروں والے بینر اٹھا رکھے تھے۔
بعد ازاں ہزاروں لوگ سٹی ہال کے باہر ایک ریلیمیں شامل ہوئے، جہاں میئر کی پارٹی مرکزی اپوزیشن ریپبلکن پیپلزپارٹی یا سی ایچ پی کے رہنماؤں نے حکومت پر ’کُو‘ کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی ’کُو‘ کے ذریعے عوام کی مرضی کو غصب کیا جا رہا ہے۔
آمرانہ رجحانات کے ساتھ ابھرنے والے اردگان نے 20سال سے زائد عرصے تک ترکی کی بطور وزیراعظم یا صدر قیادت کی ہے۔ ان کی موجودہ مدت2028تک ہے، لیکن انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ وہ طویل عرصے تک خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا وہ آئینی تبدیلی کے ساتھ کر سکتے ہیں، یا پھر قبل از ووقت انتخابات کرواکے بھی یہ ہدف حاصل کیاجا سکتا ہے۔
استنبول کی اسٹاک ایکسچینج کا مرکزی انڈیکس اس خبر کے بعد 7فیصد گر گیا۔ ترک کرنسی لیرا کی قدر بھی ڈالر کے مقابلے میں 3.5فیصد گر گئی۔
دوسری طرف خبر رساں ایجنسی انادولو نے کہا کہ امام اوغلوں اور دیگر کئی افراد پر بہت سی مالی بے ضابطگیوں کا شبہ ہے۔ ایجنسی کے مطابق امام اوغلو پر یہ بھی شبہ ہے کہ وہ مبینہ طور پر استنبول کے میونسپل انتخابات کے لیے ایک کرد امبریلا تنظیم کے ساتھ اتحاد بنا کر کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)کی مدد کر رہے ہیں۔ ترکی میں ایک دہائی سے جاری شورش کے پیچھے پی کے کے کو انقراہ، واشنگٹن اور دیگر اتحادیوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
استنبول کے چیف پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے بعد میں حکام کے لیے ایک عدالتی حکم نامہ حاصل کیا ہے تاکہ وہ جزوی طور پر امام اوغلو کی ملکیتی ایک تعمیراتی کمپنی کو ضبط کر لیں۔
یاد رہے کہ گرفتاری سے ایک روز قبل ہی استنبول یونیورسٹی نے امام اوغلو کے ڈپلومہ کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جس کے بعد انہیں اگلی صدارتی دوڑ سے موثر طریقے سے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ ترکی کے قانون کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یونیورسٹی کی ڈگری لازمی ہے۔
میئر کی پارٹی نے اتوار کو ایک پرائمری کا انعقاد کرنا تھا، جہاں انہیں مستقبل کے صدارتی انتخابات میں اپنے امیدوار کے لیے منتخب کیے جانے کی امید تھی۔
اپنے وکیل کے ذریعے بھیجے گئے ایک پیغام میں امام اوغلو نے کہا کہ ان کے حوصلے بلند ہیں اور انہوں نے اپنے حامیوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے حوصلے بلند رکھیں۔
امام اوغلو کے ڈپلومہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یونیورسٹی نے 1990میں شمالی قبرص کی ایک نجی یونیورسٹی سے اس کی بزنس فیکلٹی میں منتقلی میں مبینہ بے ضابطگیوں کا حوالہ دیا۔ تاہم امام اوغلو نے کہا ہے کہ وہ یہ فیصلہ چیلنج کریں گے۔
انہیں متعدد مقدمات کا بھی سامنا ہے، جن میں اپوزیشن کی زیر قیادت بلدیات کی تحقیقات کرنے والے عدالتی ماہر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے الزامات بھی شامل ہیں۔ مقدمات کے نتیجے میں جیل کی سزائیں اور سیاسیپابندی لگ سکتی ہے۔
وہ ترکی کی سپریم الیکٹورل کونسل کے ممبران کی توہین کرنے کے الزام میں 2022کو سنائی گئی سزا کے خلاف بھی اپیل کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کیس ہے جس کے نتیجے میں بھی ان پر سیاسی پابندی لگ سکتی ہے۔
وہ مارچ2019میں ترکی کے سب سے بڑے شہر کے میئر منتخب ہوئے تھے، جو اردگان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے لیے ایک تاریخ ساز دھچکا تھا، جس نے ایک چوتھائی صدی سے استنبول کو کنٹرول کیا تھا۔ پارٹی نے بے ضابطگیوں کا الزام لگاتے ہوئے 16ملین کی آبادی والے شہر میں میونسپل الیکشن کے نتائج کو کالعدم قرار دینے پر زور دیا۔
اس چیلنج کے نتیجے میں چند مہینوں بعد دوبارہ انتخاب ہوا، جسے پھر امام اوغلو نے جیت لیا۔ میئر نے گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات کے بعد اپنی نشست برقرار رکھی، جس کے دوران ان کی پارٹی نے اردگان کی گورننگ پارٹی کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔