پاکستان

سانحہ پشاور: مذہبی جنونیوں سے مذاکرات سب پر بھاری رہیں گے

فاروق طارق

آرمی پبلک سکول میں 16 دسمبر  2014ء کو 150 سے زائد طلبہ اور ٹیچرز کی ہلاکت کے اندوہناک واقعے کے پانچ سال بعد بھی مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کی مختلف شکلیں مختلف اوقات میں اپنا اظہار کرتی رہیں ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اس طرح سرگرم نظر نہیں آتی جس طرح ماضی میں تھی اور افغانی تحریک طالبان سے رشتے ناطے دوبارہ جوڑے جا رہے ہیں۔

اس سے قبل جس طرح امریکی سامراج نے نائین الیون کے بعد مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کے خلاف فوجی کاروائیاں کیں یعنی جن کو انہوں نے پالا پوسا تھا ان کے خلاف ہی اب بم برسائے جا رہے تھے۔ اسی طرح 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے دل سوزواقعہ کے بعد فوجی جرنیلوں کی اکثریت بھی اس نتیجہ پر پہنچ گئی کہ ان کو مار ہی دینا بہتر ہے۔ چناچہ ان کے خلاف ہول سیل فوجی کاروائیاں کی گئیں اور اس کانتیجہ وزیرستان میں رہنے والے عام لوگوں نے بھی بھگتا جو لاکھوں کی تعداد میں بے گھرہوئے۔

اب ایک بار پھر افغانی طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا ہے اور پاکستان کی حکومت دل وجان سے اس ایشو پر متحرک ہے اور امریکی سامراج کے ساتھ ان کے مذاکرات کرانے میں بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اسے اپنی خارجہ پالیسی کی جیت قرار دینے کی سعی بھی کی جاتی ہے۔

ماضی میں ان دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کا راستہ بھی انہوں نے اپنا کر دیکھ لیا تھا اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی گئی۔ مگر یہ کچھ سیکھنے سے عاری حکمران طبقہ ہے۔

مذہبی دہشت گرد گروہ ایک نئی طرز کافاشزم ہے جو اپنے مخالفین کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے فلسفے پر یقین رکھتاہے۔ ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

ہم ہمیشہ طالبان سے کسی قسم کے بھی ریاستی یا غیر ریاستی تعلقات اور رشتے ناطوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ہمارا یہ موقف تھا کہ طالبان کوئی جمہوری طاقت نہیں، وہ بادشاہت اور خلافت چاہتے ہیں۔ ان سے ریاست تمام رشتے ناطے توڑے۔ ان کی سبسڈیز بند کی جائیں اور دہشت گردی کو سیاسی کور نہ دیا جائے۔ یہ امریکہ کی نہیں، ہماری جنگ ہے۔ یہ جنونی ہماری تہذیب، ثقافت، رسم ورواج، جمہوریت اور پہچان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

مگر رشتے ناطے آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ جب 5 اکتوبر 2016ء کو روزنامہ ڈان نے سیرل المیڈا کی خصوصی رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ سویلینز نے فوجی قیادت کو کہا کہ وہ جلد ان جنونیوں کے خلاف اقدامات کریں ورنہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکارہوجائے گا۔ اور اس اہم اجلاس میں شہباز شریف اور آئی ایس آئی کے چیف کے درمیان تلخی اس وقت ہو ئی جب شہباز شریف نے کہا کہ ہم ان دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں اور یہ چھڑا کرلے جاتے ہیں۔ فوجی جرنیل اس وقت سیخ پا ہوئے۔

پھر ڈان لیکس کا شور پڑ گیا اوراس بات پر زور نہیں دیا گیا کہ کیوں کچھ فوجی ادارے ان مذہبی جنونیوں سے تعلقات ختم نہیں کرتے بلکہ اس بات پر زور دیا گیا کہ ہماری باتیں باہر کیسے پہنچیں اور مسلم لیگی قیادت نے اپنے سب سے اچھے ترجمان پرویز رشید کو اس کے لئے قربانی کا بکرا بنادیاکہ فوجی ناراض نہ ہوں۔

پھر پہلی دفعہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے یہ درست بات کہی کہ ”یہ ہماری اپنی جنگ ہے“ جبکہ عمران خان بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہم امریکہ کی جنگ کیوں لڑیں۔

یہ بات ہم دہائیوں سے کہہ رہے تھے کہ آج کا ایک اہم ترین تضاد مذہبی جنونیت کا پھیلاؤ ہے۔ اس کو روکنے کی تدابیر کو اہمیت ہونی چاہئے۔ مگر ہمارے اپنے بائیں بازو کے ساتھی بھی کہتے تھے کہ یہ ریاست کے پٹھو ہیں ریاست جب چاہے انہیں کنٹرول کر لے گی۔ پہلی بات درست تھی کہ یہ ریاستی سطح پر پھلے پھولے مگر دوسری درست نہ تھی۔ وہ یہ بات سمجھ نہیں رہے تھے کہ یہ ان ریاستی کنٹرول سے باہر اپنی ایک سماجی طاقت رکھتے ہیں۔

ہمارا موقف واضح ہے۔ مذہبی جنونیت کو روکنے کے لئے ریاست اپنا کردار تب ہی موثر انداز میں ادا کر سکتی ہے جب وہ نظریاتی طور پر ہر اس بات کے لئے تیار ہو کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے۔ وہ تمام شہریوں کے لئے برابر کا سلوک کرنے والی ہو۔ ایک نان مسلم بھی اگر وہ پاکستانی شہری ہے تو ریاست کے کسی بھی ادارے کا سربراہ بننے کا اہل ہو۔

مذہبی جنوبیت کی انتہا پسند شکلیں اب یورپ میں بھی تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ دہشت گردانہ واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پرہجوم جگہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان، افغانستان، عراق، شام اور مصر وغیرہ میں بھی بار بار ہو رہا ہے۔

مذہبی جنونیت کے پھیلاؤ میں پچھلے تیس سالوں میں مدرسوں کی تعداد میں مسلسل اضافے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مدرسوں کو تعمیر کرنے میں سب سے زیادہ امداد سعودی بادشاہت نے دی ہے۔

سعودی بادشاہت کو قائم دائم رکھنے میں امریکی اور یورپین سامراج کا اہم کردار ہے۔ ان ممالک کے جدید ترین اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب ہے اور سعودیوں کے تیل کی زیادہ تر رقم بھی انہی ممالک کے بینکوں میں ہے۔

مذہبی دہشت گردی کی مبلغین تنظیموں کو بنانے اور مظبوط کرنے میں بھی یہ سامراجی ممالک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب یہی قوتیں ان سے مذاکرات چاہتی ہیں۔ جو شاید ان کے آج کے مفادات کے لئے بہتر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مذہبی جنونیت کو مذاکرات کے ذریعے ”جمہوری“ بنا سکیں یا ان کو پارٹنر بنا کر ان کی نفسیات تبدیل کر سکیں۔ ان کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کی ضرورت ہے جو یہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔