آدم ہنیہ
ترجمہ: محمد علی
ہماری زندگیاں کوویڈ 19 کی سنامی کے سامنے اس شدت سے تبدیل ہورہی ہیں کہ صرف کچھ ہفتے پہلے تک ایسا تصور کرنا بھی مشکل تھا۔ 2008-2009ءکے معاشی بحران کے بعد سے دنیا نے ایک ساتھ، ایسے تجربے کا مقابلہ نہیں کیا تھا: ایک اکیلا، تیزی سے تبدیل ہوتا، عالمی بحران جس نے ہماری زندگیوں کی تال کو خطرات اور ممکنہ احتمالات کے پیچیدہ حساب کتاب سے لاکر جوڑ دیا ہے۔
اس کے مقابلے میں کئی ایسی سماجی تحریکیں رونما ہوئی ہیں جنہوں نے ایسے مطالبات پیش کئے ہیں جو اس وبا کی ممکنہ تباہکاریوں کا سنجیدگی سے احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ حکومتیں اس قابل ہی نہیں کہ وہ اس بحران کا مقابلہ کرسکیں۔
ان مطالبات میں ورکر زسیفٹی، محلوں کی سطح پر آرگنائزیشنز، آمدن اور سوشل سکیورٹی، صفر گھنٹے کے کانٹریکٹ یا غیر یقینی ملازمت پر کام کرنے والے افراد کے حقوق اور کرائے پر رہنے والے افراد اور غربت میں رہنے والے افراد کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کروناوائرس کے بحران نے صحت کے شعبے کی منافع کے لیے کام کرنے کی غیر منطقی خصوصیت کو عیاں کردیا ہے۔ تقریباً عالمی سطح پر پبلک ہسپتالوں میں سٹاف اور انفراسٹرکچر میں ہونے والی کٹوتیاں (جن میں انتہائی نگہداشت کے بستر اور وینٹی لیٹرز شامل تھے)، پبلک ہیلتھ کی فراہمی کی عدم موجودگی اور کئی ممالک میں اکثریت کی مالی پہنچ سے تجاوز کرتے ہوئے ہسپتالوں کے بل، بڑی دوا ساز کمپنیوں کے اپنائے گئے طریقہ کار جن سے پراپرٹی رائٹس استعمال کرکے ضروری ادویات کے پھیلاﺅ اور ویکسین کی پیداوار کو روک دیا گیا۔
البتہ کروناوائرس کے حوالے سے بائیں بازو کی طرف سے کرونا وائرس کے عالمی اثرات پر زیادہ بات چیت نہیں کی گئی۔ مائیک ڈیوس نے صحیح طور پر کہا ہے کہ ”صحافیوں اور مغربی حکومتوں نے دنیا بھر کے غریب طبقے کو لاحق خطرات کو نظر انداز کردیا ہے۔ “ بائیں بازو میں بھی اس بارے میں مباحث بہت محدود رہے ہیں۔ زیادہ تر توجہ امریکہ اور یورپ میں شدت کے ساتھ ابھرتے ہوئے صحت کے بحران کو دی گئی ہے۔ یورپ کے اندر بھی کرونا کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے تمام ریاستوں میں ایک سی صلاحیت موجود نہیں۔ مختلف ریاستوں میں کافی فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ ۔ ۔ جیسا کہ جرمنی اور یونان کے موازنے سے مجموعی طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن اصل بحران وہ ہے جو دنیا کے دیگر ممالک میں آنے والا ہے۔
اس وبا کے بارے میں ہمارا نکتہ نظر مکمل طور پر عالمی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ پبلک ہیلتھ کے معاملات سیاسی معیشت کے بڑے سوالات سے جوڑے بغیر نہیں سمجھے جا سکتے (اسی طرح ممکنہ عالمی معاشی بحران کو بھی سیاسی معیشت کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے)۔ یہ وہ وقت نہیں ہے جب کہا جائے کہ اس وبا کے خلاف جنگ ملکی حدود کے اندر لڑی جائے گی۔
گلوبل ساﺅتھ میں پبلک ہیلتھ
جیسا کہ ہر نام نہاد’انسانی بحران‘ کے دوران ہوتا ہے: یہ ضروری ہے کہ ہم اس چیز کو یاد رکھیں کہ گلوبل ساﺅتھ (ترقی پذیر دنیا) میں موجود لگ بھگ تمام ممالک کے سماجی خد و حال کا انحصارلازمی طور پر اس بات پر ہے کہ عالمی منڈی کے ساتھ ان کا تعلق کس نوع کا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ تعلق نوآبادیاتی دور میں قائم ہوا، جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ غریب ممالک کے مفادات دنیا کی امیر ترین ریاستوں اور بڑی کارپوریشنز کے ہاں گروی پڑے ہیں۔ لگ بھگ 1985ءسے، یکے بعد دیگر جو سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹس ہوئیں (جو زیادہ تر مغربی فوجی مداخلت، کمر توڑ پابندیوں اور جابر حکمرانوں کی مدد سے ہوئیں)، ان کے نتیجے میں غریب ممالک کی سماجی اور معاشی قا بلیت تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس وجہ سے اب یہ ترقی پذیر ممالک کرونا وائرس جیسے کسی بھی بڑے بحران سے نمٹنے سے قاصر ہیں۔
تاریخی اور عالمی عناصر کو مد نظر رکھ کر ہمارے لیے بحران کے وسیع زاویے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بحران صرف وبا پھیل جانے اور اس نئے وائرس کے مقابلے پر حیاتیاتی بچاﺅ کا سوال نہیں ہے۔ جن حالات میں افریقہ، لاطینی امریکہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کی اکثریت اس وبا کا سامنا کرے گی، وہ حالات ایسے عالمی معاشی نظام کا نتیجہ ہیں جو گلوبل ساﺅتھ کے استحصال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس حساب سے، یہ وبا، قدرتی اور حیاتیاتی وجوہات کے ساتھ۔ ۔ ایک سماجی اور انسانی سطح پر تیار کیا گیا بحران ہے۔
ایک آسان اور سادہ سی مثال جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے یہ بحران انسانوں کا تیار کردہ ہے، یہ ہے کہ جنوب کے اکثر ممالک کے پبلک ہیلتھ سسٹم دگر گوں حالات کا شکار ہیں۔ یہ پبلک ہیلتھ سسٹم فنڈنگ، ادویات، ضروری سامان اور سٹاف کی کمی کا شکارہیں۔ اس امر کی خاص بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے بحران میں خطرناک حد تک بیمار مریضوں کی تعداد میں شدت سے اضافہ ہوا ہے۔ ایسے مریضوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ان کو ہسپتال میں داخل کیا جائے (اندازوں کے مطابق 15-20 فیصد کیسز کو ہسپتال داخل کرنا پڑتا ہے)۔ اس بات کا ذکر زیادہ امریکہ اور یورپ کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور اس کا تعلق فلیٹنگ دی کرو (Flattening The Curve) حکمت عملی سے ہے (اس حکمت عملی کا مقصد ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پر دباﺅ کم کرنا ہے: مترجم)۔ امریکہ اور یورپ کے پاس انتہائی نگہداشت کی سہولیات فراہم کرنے کی گنجائش بہت کم ہے۔
بہر حال جہاں ہم انتہائی نگہداشت کے بستروں، وینٹی لیٹرز (Ventilators) اور تربیت یافتہ میڈیکل سٹاف کی مغربی ریاستوں میں کمی کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہاں ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ یہ حالات باقی دنیا میں انتہا ئی زیادہ خراب ہیں۔ مثال کے طور پر ملاوی میں ایک کروڑ ستر لاکھ افراد کے لیے 25 انتہائی نگہداشت کے بستر موجود ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اوسطاً 100,000 افراد کے لئے 2.8 انتہائی نگہداشت کے بسترموجود ہیں۔ بنگلہ دیش کے پاس 1100 بستر ہیں جو اس کی پندرہ کروڑ ستر لاکھ عوام کے لیے موجود ہیں (گویا 0.7 انتہائی نگہداشت کے بستر 100,000 افراد کے لیے)۔
یہ صورتحال اس حد تک خطرناک ہے کہ کئی غریب ممالک کے پاس انتہائی نگہداشت کی صورتحال کے بارے میں معلومات سرے سے موجود ہی نہیں، 5 201ءمیں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ”پچاس فیصد سے زیادہ (کم آمدن) والے ممالک کے پاس انتہائی نگہداشت کے حوالے سے کسی قسم کا ریکارڈ نہیں ہے“۔ اس طرح کی معلومات کی عدم موجودگی میں کورونا وبا کے حوالے سے ناگزیر طور پربڑھتی ہوئی انتہائی نگہداشت کی ضروریات کے بارے میں پلاننگ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
یقینی طور پر، ہسپتالوں اور انتہائی نگہداشت کی سہولتوں بارے بحث ان بڑے سوالات کا تسلسل ہے جو عمومی طور پر بنیادی ضروریات (صاف پانی، خوراک اور بجلی)، پرائمری میڈیکل کیئر کی عدم دستیابی اور دیگر بیماریوں (جیسا کہ ایڈز اور ٹی بی وغیرہ) کے حوالے سے اٹھائے جاتے ہیں۔ ان سارے عوامل کو ملا کر دیکھا جائے، تو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان سب عوامل کی بدولت، کرونا کی وبا کے باعث غریب ممالک میں شدید بیمار افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا (جس سے مجموعی اموات بھی بڑھیں گی)۔
لیبر اور رہائش: پبلک ہیلتھ کے مسائل ہیں
کرونا وائرس سے نپٹنے کے بہترین طریقوں کے حوالے سے جومباحث یورپ اور امریکہ میں ہوئے ہیں انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ پبلک ہیلتھ کا غربت، لیبر اور کچی نوکریوں سے گہرا تعلق ہے۔ لوگوں کو بیماری کی صورت میں خودساختہ تنہائی میں جانے کا کہا جارہا ہے۔ حکومتی ہدایت کے ذریعے لگائی جانے والی ان بندشوں پر زیرو کنٹریکٹ یا دیگر اقسام کی وقتی نوکریوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے عمل در آمد کرنا ناممکن ہے۔ اس طرح کے کچے ملازموں کی وجہ سے پبلک ہیلتھ پر پڑنے والے بنیادی اثرات کی وجہ سے کئی یورپی حکومتوں نے وسیع پیمانے پر وعدے کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد جن کو کرونا بحران کے باعث نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا یا گھر میں رہنا پڑا ان کے نقصان کا ازالہ کیا جائے گا۔
یہ حکمت عملی کتنی موثر ہوتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگالیکن پھر بھی، ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس طرح کی حکمت عملیاں پوری دنیا کی عوام پر لاگو نہیں کی جاسکتیں۔ ایسے ممالک (جیسا کہ مشرق ِوسطیٰ، افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا) جہاں پر لیبر کی اکثریت غیر رسمی کام کرتی ہے یا غیر حتمی روزانہ کی اجرت پر انحصار کرتی ہے وہاں پر لوگوں کا گھر میں رہنا یا خود ساختہ تنہائی میں جانا حقیقتاً ناممکن ثابت ہوگا۔ اس امر کو اس حقیقت کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ اس بحران کی وجہ سے لازمی طور پر ”کام کرنے والے غریب افراد“ کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) نے تو جو بدترین پیش گوئی کی وہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں چوبیس کروڑ سات لاکھ لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ کم یا مڈل آمدنی والے ممالک میں 3.20 ڈالر روزانہ سے کم کمانے والے افراد کی تعداد میں دو کروڑ کا اضافہ ہوگا۔
ان اعداد و شمار کا ذکر صرف روزمرہ کے معاشی بقا کو لاحق خطرات کا اندازہ لگانے کے لیے نہیں کیا گیا۔ بحران کی وجہ سے قرنطینہ کی شدت کو کم کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی عدم موجودگی میں دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے تباہ کاریاں چین، یورپ اور امریکہ کی صورتحال سے بہت زیادہ بدتر ہوںگی۔
مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ غیر رسمی اور خطرناک کام پر لگے ہوئے مزدورعمومی طور پر کچی آبادیوں اور گنجان آباد علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال کرونا کے پھیلاﺅ کے لیے سازگار ہے۔ جیسا کہ واشنگٹن پوسٹ کے ایک انٹرویو میں برازیل کے بارے میں کہا گیا: ”رئیو ڈی جنیرو کی ایک چوتھائی آبادی یعنی چودہ لاکھ لوگ شہر کی ایک کچی آبادی میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد ( مترجم: غربت کی وجہ سے) ایک دن بھی کام جائے بنا گزارا نہیں کرسکتے، ہفتہ بھر قرنطینہ میں رہنا ان کے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ لوگ گھر سے باہر نکلتے رہیں گے، اصل طوفان تو اب آنے والا ہے“۔
اسی طرح کی تباہ کن صورتحال جنگ یا خانہ جنگی کی وجہ سے سینکڑوں نقل مکانی کرنے پر مجبور افراد کو لاحق ہے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ، جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی جبراً کی جانے والی نقل مکانی کا گڑھ ہے۔ یمن، شام، لیبیا اور عراق میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے کئی مہاجرین اور اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے یہ افراد انتہائی خطرناک صورتحال میں پھنس گئے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر مہاجرین کے کیمپوں یا گنجان آباد شہری علاقہ جات میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ لوگ بنیادی صحت کی سہولیات بھی نہیں حاصل کرپاتے۔ اس کے ساتھ بڑھتی ہوئی غذائی قلت اور دیگر بیماریوں (جیسا کہ یمن میں ہیضہ) کا دوبارہ پھیلاﺅ ان مہاجرین کو وبا سے لاحق خطرات کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔
اس صورتحال کی ایک مثال غزہ میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں ستر فیصد سے زیادہ مہاجرین دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آبادعلاقے میں رہتے ہیں۔ 20 مارچ کو کرونا وائرس کے پہلے دو مریض غزہ میں دیکھے گئے (ٹیسٹ کرنے کے لیے درکار مشینوں کی کمی کی وجہ سے بیس لاکھ کی آبادی میں صرف ننانوے افراد کو ہی کرونا کے لیے ٹیسٹ کیا جاسکا)۔ اسرائیل کی طرف سے جاری تیرہ سالہ محاصرے کی وجہ سے بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی سے غزہ کو شدید غربت، صفائی ستھرائی کی تشویشناک صورتحال اور ادویات اور صحت کے ساز و سامان کی کمی (غزہ میں صرف 62 وینٹی لیٹر موجود ہیں، جن میں سے صرف پندرہ استعمال کے لیے موجود ہیں) جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے متواتر بندشوں کی وجہ سے غزہ وبا کے پھیلنے سے پہلے ہی دنیا کے لیے بند تھا۔ یہ خطہ کرونا وائرس کے مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں موجود مہاجر کیمپوں کی بری حالت کی علامت بن سکتا ہے۔
بحران ایک دوسرے کا تسلسل ہیں
غریب ممالک کو کرونا وائرس کی وجہ سے درپیش پبلک ہیلتھ کا بحران، عالمی معیشت کی گراوٹ سے مزید بڑھ جائے گا۔ یہ عالمی بحران 2008ءکے بحران سے بھی زیادہ شدید ہوگا۔ اس بحران کی گہرائی کا اندازہ لگانا اس وقت مشکل ہے لیکن کئی مالیاتی ادارے اشارہ کررہے ہیں کہ یہ موجودہ دور کا سب سے بڑا بحران ہوگا۔
اس کی ایک وجہ پیداوار، ٹرانسپورٹ اور سروس سیکٹر کا امریکہ، یورپ اور چین میں ایک ساتھ بند ہوجانا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس وقت دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ کسی نہ کسی طرز کے لاک ڈاﺅن کا شکار ہے۔ سپلائی چین (Supply Chain) اور عالمی تجارت تباہ ہوچکی ہے اور سٹاک مارکیٹ گر چکی ہے۔ تقریباً تمام بڑی ایکسچینج 17 فروری سے 17 مارچ کے دوران اپنی قدر میں 30-40 فیصد گراوٹ کا شکار ہوچکی ہیں۔
لیکن، جیسا کہ ایرک توساں نے زور دیا ہے، جس معاشی بحران کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ کرونا وائرس نہیں ہے بلکہ یہ وبا ایک عرصے سے تیار ہونے والے گہرے بحران کو شروع کرنے کی وجہ بنی ہے۔ اس بحران کی وجہ وہ اقدامات ہیں جو حکومتوں اور مرکزی بینکوں نے 2008ءسے اپنائے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر مقداری آسانی ( Quantitative Easing) اور سود کی شرح میں بار بار کمی۔ ان پالیسیوں کا مقصد مالیاتی منڈیوں کو وافر مقدار میں سستے پیسے فراہم کرکے شیئر کی قیمتوں کو بڑھانا ہے۔ اس کی وجہ سے کارپوریٹ، حکومتی اور گھریلو قرضہ جات کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر امریکہ میں بڑی کمپنیوں کے غیر مالیاتی قرضہ جات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور ان قرضوں کی مالیت 2019ءمیں دس ٹریلین ڈالرز (جی ڈی پی کا 48 فیصد) تک پہنچ گئی۔
یہ 2008ءکے دوران (جی ڈی پی کے 44 فیصد) سے بہت زیادہ اضافہ تھا۔ عام طور پر اس قرض کا استعمال پیداواری انوسٹمنٹ کی بجائے مالیاتی کاموں (جیسا کہ مالی اوانت ( Funding Dividends)، حصص کی خرید و فروخت، کارپوریشنز کے انضمام اور حصول) پر خرچ کیا گیا۔ اس کی وجہ سے ہم نے ایک طرف بڑھتی ہوئی سٹاک مارکیٹس جبکہ دوسری طرف انوسٹمنٹ میں رکاوٹ اور گرتی ہوئی شرح منافع کے رجحان کو دیکھا۔
لیکن آنے والے بحران کی اہم بات یہ ہے کہ کارپوریٹ قرضہ جات میں اضافے کی زیادہ مقدار بلو انوسٹمنٹ گریڈ بونڈز (Below Investment Grade Bonds) اور نام نہاد جنک بانڈز (Junk Bonds)میں ہوئی ہے، یا پھر ان بانڈز میں جن کی ریٹنگ بی بی بی، جنک بانڈز سے صرف ایک درجہ اوپر میں ہوئی ہے۔ یقینا، دنیا کے سب سے بڑے اثاثوں کو مینیج کرنے والے ادارے بلیک راک کے مطابق، 2019ءکے دوران بی بی بی قرضہ جات کی دنیا کی گلوبل مارکیٹ میں حصہ داری 50فیصد تھی۔ 2001ءمیں ان کی مقدار صرف 17 فیصد تھی۔ اس کا مطلب ہے دنیا بھر میں ایک ساتھ پیداوار کا زوال، مانگ اور مالیاتی اثاثوں کی قیمتوں میں شدت کے ساتھ کمی۔
یہ سارے عوامل ان کارپوریشنز کے لیے بہت مسائل پیدا کرتے ہیں جن کو اپنے قرضہ جات کی ری فنانسنگ کی ضرورت درپیش ہو۔ بنیادی سیکٹرز میں معاشی سرگرمیاں رک جانے کے ساتھ ہی، وہ کمپنیاں جن کے قرضہ جات ختم ہونے جارہے تھے، وہ ایک ایسی مارکیٹ کا سامنا کریں گے جو کہ حقیقتاً بکھر چکی ہے۔ اس صورتحال میں کوئی بھی کسی کو قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کئی حد سے بڑھی ہوئی کمپنیاں (خاص کر وہ جن کا تعلق ایئر لائنز، پرچون، انرجی، سیاحت، آٹوموبائل اور تفریح کی صنعت سے ہے) وہ شاید کسی قسم کی آمدن نہ کر پائیں۔ یہ قوی امکان ہے کہ ایک لہر کے ساتھ کئی بڑی کاپوریشنز دیوالیہ اور کریڈٹ ڈاﺅن گریڈ ہوجائیں۔ یہ مسئلہ صرف امریکہ کو ہی نہیں درپیش، مالیاتی تجزیہ نگاروں نے حال ہی میں ایشیا پیسیفک علاقے میں ”نقدی کے بحران“ اور ”دیوالیہ پن کی لہر“ بارے خبردار کیا ہے۔ اس خطے میں کارپوریٹ کے قرضہ جات کی رقم پچھلی دہائی کے دوران دگنی ہوکر 32 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
اس سب سے پوری دنیا کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ کئی ٹرانسمیشن روٹس کے ذریعے یہ گراوٹ غریب ممالک اور عوام کو متاثر کرے گی۔ جیسا کہ 2008ءکے دوران ہوا تھا: برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحتی آمدن میں شدید کمی کے ساتھ مزدوروں کی تنخواہوں میں شدید کمی ہوگی۔ مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کو اکثر اوقات موجودہ بحران کی بحث میں شامل نہیں کیا جاتا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نیو لبرل ازم کی کلیدی خصوصیات میں سے ایک دنیا بھر کی وسیع عوام کا عالمی سرمایہ داری نظام میں شامل ہونا ہے۔
یہ عمل بیرون ملک مقیم خاندانی افراد کی ترسیلات کے ذریعے ممکن ہو پاتا ہے۔ 1999ءمیں صرف گیارہ ایسے ممالک تھے جن کی ترسیلات جی ڈی پی کا 10 فیصد تھیں۔ 2016ءمیں ایسے ممالک کی تعداد تیس تک پہنچ گئی۔ 2016ءمیں، 179 ممالک میں سے تیس فیصد سے زیادہ ممالک جن کے اعداد و شمار موجود تھے، ان کی ترسیلات جی ڈی پی کے 5 فیصد سے زیادہ تھیں۔ 2000ءکے بعد سے یہ دگنی ہوگئی ہیں۔ حیران کن طور پر، تقریباً ایک ارب افراد، یا پھر ہر سات میں سے ایک فرد کسی نہ کسی طرح سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بھیجنے والے یا وصول کنندہ کے طور پر بیرون ملک ترسیلات سے تعلق رکھتا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے بارڈروں کی بندش۔ ۔ ۔ ساتھ میں کلیدی سیکٹرز جن مین عمومی طور پر تارکینِ وطن کام کرتے ہیں کی بندش کی وجہ سے عالمی ترسیلات میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ یہ وہ نتیجہ ہے جس کی وجہ سے گلوبل ساﺅتھ کے ممالک کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک اور میکانزم جس کی وجہ سے ارتقا پذیر ہونے والا یہ معاشی بحران جنوبی ممالک پر اثر ڈالے گا وہ غریب ممالک کے بڑھتے ہوئے قرضہ جات ہیں۔ ان میں سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ نام نہادترقی کرتی ہوئی معیشتیں بھی شامل ہیں۔ 2019ءکے اختتام میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فائنانس نے اندازہ لگایا تھا کہ ترقی کرتی ہوئی منڈیوں کے قرضہ جات کی رقم 72 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ یہ قرضہ جات 2010ءکے مقابلے میں دوگنے ہوچکے ہیں۔
ان قرضہ جات میں سے اکثر قرضہ جات کی قدر ڈالر ہے جس کی وجہ سے قرضہ دہندگان امریکی ڈالر کی مارکیٹ میں حرکت سے شدت سے متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ ہفتوں سے امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ انویسٹرز کا بحران کے دوران کسی بااعتماد چیز کی تلاش ہے لیکن اس کا نتیجہ دیگر نیشنل کرنسی کی قدر میں گراوٹ ہے۔ اس کی وجہ امریکی ڈالر میں دئے گئے قرضہ جات کے سود اور اصلی رقم کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ہی 2018ءمیں، 46 ممالک اپنے جی ڈی پی میں سے پبلک قرضہ جات پر صحت کے شعبے کے مقابلے میں زیادہ خرچ کررہے تھے۔
آج ہم ایک ایسی خطرناک صورت ِحال کی طرف جارہے ہیں جہاں کئی غریب ممالک، بڑھتی ہوئی قرضہ جات کی اقساط کا سامنا ایسے وقت میں کریں گے جہاں وہ ساتھ ہی بے مثال صحت کے بحران کا سامنا بھی کریں گے۔ ۔ ۔ اوریہ سب ایک شدیدعالمی معاشی بحران کے دوران ہو رہا ہے۔
ہمیں اس بات کا گمان بالکل بھی نہیں کرنا چاہیے کہ ان مختلف بحرانوں کی وجہ سے سٹرکچرل ایڈجسمنٹ کا دور ختم ہو جائے گا یاکسی ”عالمگیر سوشل ڈیماکریسی“ کا جنم ہوگا۔ جیسا کہ ہم پچھلی دہائی میں کئی بار پہلے بھی دیکھ چکے ہیں، سرمایہ متعدد بار بحران کی کیفیت کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرکے ایسی کلیدی تبدیلیاں کرتا ہے جن کو پہلے روک دیا جاتا تھا یا پھر ان کو لاگو کرنا ناممکن ہوتا تھا۔ یقینا، ورلڈ بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے پچھلے دنوں فنانس منسٹرز کے مابین ہونے والی ورچول جی ٹونٹی (G-20) اجلاس کے دوران کہا تھا: ”ممالک کو ایسی سٹرکچرل اصلاحات کرنا پڑیں گی تاکہ صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے درکار وقت کو کم کیا جاسکے۔ ۔ ۔ ایسے ممالک جنہوں نے اضافی ضابطے رکھے ہوئے ہیں، سبسڈی، لائسنس رجیم، ٹریڈ پروٹیکشن یا دیگر قانونی طریقہ کار رکاوٹ کے طور پر رکھے ہوئے ہیں، ہم ان کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ منڈیوں کو بہتر کرنے کے ساتھ، فیصلہ سازی اور تیز ترین بڑھوتری کے موقع جات کو بہتری کے دوران لاگو کیا جاسکے“۔
یہ ضروری ہے کہ ان تمام عالمی معاملات کو کرونا وائرس کے بارے میں بائیں بازو کے مباحث میں شامل کیا جائے۔ وبا کے خلاف جنگ میں ”تیسری دنیا“ کے قرضہ جات کے خاتمے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی نیو لبرل سٹرکچرل ایڈجسمنٹ پیکیج کا خاتمہ، نو آبادکاریوں سے لوٹے ہوئے مال کی واپسی، عالمی اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی، (مختلف ملکوں پر لگائے جانے والی) پابندیوں کا خاتمہ اور دیگر سوالات کو شامل کرنا ہوگا۔
یہ تمام کمپنیاں عالمی سطح پر عوامی صحت کے معاملات سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق بالواسطہ طور پر غریب ممالک کی وبا کے اثرات کو کم کرنے کی صلاحیتوں اور اس کے ساتھ پیدا ہونے والے معاشی بحران سے جاملتا ہے۔ صرف اپنے علاقوں، کمیونٹی اور ممالک میں اظہار یکجہتی ہی کافی نہیں۔ ہمیں دیگر ممالک میں پڑنے والے وبا کے اثرات کے حوالے سے بھی بات کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ غربت کی شرح میں اضافہ، لیبر اور رہائش کی دگر گوں صورتحال اور صحت کے ناکافی انفراسٹرکچر نے یورپ اور امریکہ میں اس وبا سے لڑنے کی صلاحیت کو شدت سے متاثر کیا ہے لیکن جنوب میں گراس روٹ کمپنیاں ایسے اتحاد بنارہی ہیں جو ان معاملات کا بہت دلچسپ اور انٹرنیشنل اسٹ طریقہ کار سے مقابلہ کررہی ہیں۔ ایک عالمی نقطہ نظر کے بغیر، ہم اس سوچ کو طاقت دے رہے ہیں جو کٹر قوم پرستی اور نفرت کو فروغ دیتی ہے، جو آمریت، بارڈر کنٹرول اور”میرا ملک پہلے“ کے نعروں کو فروغ دیتی ہے۔