طاہر کامران
ترجمہ: رانا مبشر
کچھ لوگوں کی روحوں کے کونوں کھدروں میں جہالت اتنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے کہ ہارورڈ جیسی اعلیٰ اور معیاری دانش گاہ اور اس دانش گاہ کے ساتھ زندگی بھر کی وابستگی بھی ایسے لوگوں کی جہالت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لاعلمی غرور کے ساتھ دیگر فضولیات کو بھی پالتی ہے اور جب ایک بارکوئی شخص اس کا شکار بن جائے تو ایسے شخص کا انسان بنناممکن نہیں رہتا۔
کچھ ضدی اور سنگدل افراد کو سرے سے سدھارا ہی نہیں جاسکتا اور کچھ نا قابلِ اصلاح کرداروں کو بھی سیدھی راہ پر نہیں لایا جاسکتا خواہ انہیں تعلیم کیلئے ہارورڈ یونیورسٹی یا ایم آئی ٹی (معروف امریکی یونیورسٹی: مترجم) میں ہی کیوں نہ بھیجا جائے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ مشہور اداروں سے تعلیم یافتہ ہونا کسی فرد میں انسانی اقدار پر کاربند رہنے کی ضمانت نہیں دیتا۔
مزید آگے بڑھنے سے پہلے، آئیے ایک انسان کی تعریف وضع کرنے کی کوشش کریں۔ میرے سماجی و سیاسی نقطہ نظر کے مطابق، اپنے آپ کو جنوب ایشیائی پس منظر میں رکھتے ہوئے، انسان کی وسیع تر انداز میں تعریف یوں کی جاسکتی ہے: انسان وہ ہے جومذہبی اور تہذیبی اخلاقیات کے تنوع اور برداشت پر یقین رکھتا ہے۔ بدقستی سے دوسروں کے ساتھ معاشرتی یا مذہبی بنیادپر، ذات، نسل یا فرقہ کی بنیاد پر امتیاز برتنا اس خطے کا سب سے بڑا ناسور ثابت ہوا ہے۔
موجودہ سیاسی منظرنامے میں، انسانیت کی اس تعریف سے انحراف کرنے والی ایک ممتاز شخصیت ہندوستانی ٹیکنوکریٹ کی حیثیت سے سیاستدان بننے والے ڈاکٹر سبرامنین سوامی ہیں جن کا تعلق بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) سے ہے۔ سوامی جی ہندوستان کے پلاننگ کمیشن کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور چندر شیکھر حکومت میں وزیر تھے۔ وہ جنتا پارٹی کے بانی ممبروں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے 1990ء کے آغاز سے لے کر 2013ء تک پارٹی کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعدازاں جنتا پارٹی بی جے پی میں ضم ہوگئی۔
وہ 1974ء سے 1999ء کے درمیان پانچ بار لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئے۔ انہوں نے 2013ء میں باضابطہ طور پر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی جب راج ناتھ سنگھ پارٹی کے صدرتھے۔ وہ 1963ء میں اقوام متحدہ کے ماہر معاشیات اور 1986ء میں ورلڈ بینک کے مشیر رہے۔ آج کل، وہ کوچی میں اسکول آف کمیونیکیشن اینڈ منیجمنٹ اسٹڈیز کے چیئرمین ہیں۔ 81 برس کی عمر میں، سبرامنین سوامی کو یہ آرٹ آتا ہے کہ سب کی توجہ کا مرکز کیسے بنا رہتے ہیں۔
وہ اپنے اشتعال انگیز بیانات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کے حوالے سے۔ سوچتا ہوں کہ کیا یہ صاحب حقیقت میں اُس بی جے پی کے لئے کسی سیاسی مقصد کو پورا کرتے نظر آتے ہیں جس نے نفرت کی سیاست کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔
موصوف کا مسلک اور عقیدہ ہی یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں سے امتیاز برتا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک ماہر معاشیات اور ماہر شماریات ہونے کے باوجود، مودی نے بھی انہیں کسی وزارت کا قلمدان دینے کیلئے اہل نہیں سمجھا۔ ہندوتوا کے نظریے پر وہ جس شدت سے کاربند ہیں، یہ نظریاتی غیض و غضب ہارورڈ ڈگری کے باوجود، انہیں امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لوگوں کی صف میں لا کھڑا کر تا ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے ان کی اسناد کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”سیاست، پالیسی سازی اور درس و تدریس کے لئے ان کی قابلیت غیر معمولی، نہایت ممتاز اور بیش قیمت ہے۔“
اس قدر فراخ دلانہ تعریف کے باوجود، ہندوستانی تاریخ اور اس کے تہذیب و اخلاق کے بارے میں ان کی فہم و فراست پر کئی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ اگر انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ، ان کی ثقافت، معاشرتی اقدار اور انتظامی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ان کے کردار کا علم ہوتا تو وہ ہندوستان کوایک ہندو ملک (راشٹر) قرار نہ دے رہے ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان یا دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد یا اس سے زائد ہے، وہاں یہ پریشانی کا باعث بنتے ہیں اور مسلمانوں کی شر انگیزی کی وجہ ان کا اسلامی نظریہ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سبرامنین سوامی اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں قطعی طور پر کچھ نہیں جانتے۔
ان کی تعلیمی قابلیت غیر معمولی ہے اور یہ ان کی سیکھنے کی صلاحیت کا واضح اظہار ہے۔ یہ رپورٹ ہندوستانی میڈیا (جس کی ساکھ انتہائی مشکوک ہے، لہٰذا اس خبر کو ذرا شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے) میں آئی تھی کہ انہیں ایک بار چینی زبان (جسے دنیا میں مشکل ترین زبانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے) صرف ایک سال میں سیکھنے کا چیلینج کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سوامی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا اور ایک سال کی بجائے صرف تین ماہ کے اندر اس میں مہارت حاصل کر کے اپنے با صلاحیت ہونے کا ثبوت دیا۔
ان کی قابلیتوں کی داستان کو قبول کرتے ہوئے، میں سمجھتا ہوں کہ سیاست میں آنا ان کی ایک فاش غلطی تھی۔ یہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہیں شعبہ تدریس سے ہی وابستہ رہنا چاہیے تھا۔ ا س حیثیت میں وہ اپنے ملک کی کہیں زیادہ بہترخدمت کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر سوامی نے دہلی یونیورسٹی کے ہندو کالج سے ریاضی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور انڈین سٹیٹیسٹکل انسٹی ٹیوٹ سے شماریات میں ایم اے کیا۔ نوبل انعام یافتہ سائمن کزنٹس کی زیر نگرانی، انتہائی جانفشانی سے، انہوں نے 1965ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کرنے کے دوران انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سکریٹریٹ میں اسسٹنٹ اکنامکس افیئرز آفیسر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ 1964ء میں ڈاکٹر سوامی کو ہارورڈ یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی۔ جب وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے تو، ان سے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر امارتیہ سین نے درخواست کی تھی کہ دہلی اسکول آف اکنامکس کے شعبہ چائنہ اسٹڈیز میں ریڈرز چیئر کا عہدہ قبول کرلیں۔
لیکن جب وہ ڈی ایس ای (دہلی اسکول آف اکنامکس) پہنچے تو حکومت نے ان کی ہندوستان کے ایٹمی پروگرام اور ان کے مارکیٹ فرینڈلی خیالات کی وجہ سے ان کی تقرری منسوخ کردی۔ وہ 1969ء سے 1991ء تک انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی میں میتھمیٹکل اکنامکس کے پروفیسر رہے۔ کانگریس حکومت نے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ ڈاکٹر سوامی نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور انہیں 1990ء کی دہائی کے آخر میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بحال کردیا۔ اس وجہ سے کانگریس پارٹی کے ساتھ تعلقات انتہائی تلخ ہوگئے اور اس واقعہ نے انہیں سیاست میں آنے کی ایک وجہ فراہم کی۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے دو دامادوں میں سے ایک مسلمان ہیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی، سہاسنی حیدر (جو ایک مشہور صحافی ہیں) کی شادی ہندوستانی سفارتکار سلمان حیدر کے بیٹے ندیم حیدر سے ہوئی ہے۔ بہر حال، سبرامنین کی مسلمانوں کے لئے عداوت ایک کھلا راز ہے۔ ایک مسلم داماد ہونے کے علاوہ ان کی اہلیہ روکسانا عقیدے کے لحاظ سے زرتشت ہیں۔ سوامی کی ان سے تب ملاقات ہوئی تھی جب وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ تب وہ ریاضی میں پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ جون 1966ء میں ان کی شادی ہوگئی اور ان کی دو بیٹیاں ہیں۔
انسانی عقل کاتقاضہ ہے کہ اس طرح کے بین المذاہب تعلقات نے دوسرے مذاہب کے لوگوں خصوصا ًمسلمانوں کیلئے ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا کیا ہوتا۔ ۔ ۔ لیکن ڈاکٹر سبرامنین انسانی عقل کی ضد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار ڈاکٹر سبرامنین کاایک کورس ان دنوں روکنا پڑاجب وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہندوستانی مسلمان طلبہ کو ووٹ کا حق دینے کیخلاف تھے تا آنکہ مسلمان طلبہ تسلیم کریں کہ ان کے آبا و اجداد ہندو تھے۔
اسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی کو اپنے سمر کورسز میں سے اکنامکس کے دو کورس، جو سبرامنین نے پڑھانے تھے، اپنے نصاب سے خارج کرنے پڑے۔ ہوا یوں کہ 2012ء میں ڈاکٹر سوامی نے ایک اخباری کالم میں ہندوستان کی تمام مساجد کو مسمار کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس طرح کے جارحانہ بیانات بی جے پی کے حمایتیوں میں پائی جانے والی نفرت کی حد اور گہرائی کا واضح اظہار ہیں۔ اس صورتحال نے ڈاکٹر سوامی کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ بی جے پی ہندوؤں کو متحد کرکے اور مسلمانوں کو تقسیم کرکے ہندوستان پر حکمرانی کرنا چاہتی ہے۔ ان کی قابلِ رشک تعلیمی اسناد کے باوجود، سبرامنین سوامی ہندوستان کے لئے ایک بہت بڑا سیاسی بوجھ ہیں۔ ہاں البتہ ہندوستان کے دائیں بازو کے وہ خوب کام آ رہے ہیں۔