سنا ہے یہ مجسمہ گرایا جا رہا ہے۔ مالیوں نے بنایا ہے، اس لئے گرایا جا رہا ہے۔ فوجیوں نے بنایا ہوتا تو قومی مفاد میں اسے گرانا بھی ممکن نہ رہتا۔
سوچ بچار
باچہ خان یونیورسٹی: ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر سنگسار کرنے کا اعلان کیا جائے
میری یہ تجویز بھی ہے کہ یونیورسٹی کا نام بدل کر ملا عمر یونیورسٹی رکھا جائے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
کیفے ثول کے مینجر اویس کا اپنی مالکان عظمیٰ اور دیا حیدر کے نام کھلا خط
میرا خیال تھا لوگ اس بات پر آپ کا مذاق اڑائیں گے کہ کرونا وبا کے اس خطرناک دور میں، اردو میڈیم ملازمین نے تو فیس ماسک پہن رکھا ہے مگر انگریزی میڈیم مالکائیں بغیر ماسک کے بیٹھی ہیں۔
کرونا سے صحتیابی پر مولانا طارق جمیل کے نام پولیو بارے خط
ذرا یہ بھی سوچئے گا کہ بطور ایک ارب پتی انسان صحت کی جو سہولتیں آپ کو میسر ہیں وہ پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کو میسر نہیں۔ جنرل قمر باجوہ سے لے کر نواز شریف اور عمران خان تک آپ کی بات غور سے سنتے ہیں۔ حکمرانوں کو بھی کبھی تبلیغ کیجئے کہ پاکستان کے بدقسمت لوگوں تک کم از کم صحت کی سہولت ہی پہنچا دیں۔ سی ایم ایچ جیسی سہولتیں نہ سہی، میو ہسپتال جیسی ہی سہی۔
کامریڈ علی وزیر کے نام خط
آپ کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہمیں اعتماد دے رہا ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ڈالی گئی زنجیریں اور آپ کو پابند سلاسل کرنیو الا قید خانہ ہماری تحریک کو روک نہیں سکتے۔
عقل کے سوگ
دوسری صورت میں شاید کرہ ارض بھی قائم نہ رہ سکے۔
فلتھ جنریشن وارفیئر کا پہلا نشانہ خواتین بنتی ہیں
ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے اگر آن لائن چوکیداری کے لئے خرچ کئے جا رہے ہیں تو اس کا مقصد حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کو نشانہ بنانا نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا مقصد اس فلتھ جنریشن وارفیئر کا خاتمہ ہونا چاہئے جس کی تجسیم قوم یوتھ کی شکل میں سوشل میڈیا پر مسلط کر دی گئی ہے۔
گلگت بلتستان کے انتخاب بارے بلاول کے نام خط
اس خط کا مقصد صرف یہ عرض کرنا تھا کہ آپ کے ”چوری ہونے والے الیکشن“ کا ازالہ تو صاحب لوگ کسی شکل میں کر دیں گے، آپ کے نانا نے ریاست کا جو نقصان کیا، اس کا ازالہ آپ کب کر رہے ہیں؟
ڈاؤنٹن ایبی: برطانوی ٹی وی سیریز اور امریکی سیاست
حکمرانوں کی آسان ترکیب یہ ہوتی ہے کہ اپنی اندرونی اور بیرونی رعایا کو یہ یقین دلادیں کہ وہ ’دوسروں‘ سے بہت مختلف ہیں اور ملکی مفادات کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ ’دوسروں‘کے خلاف ہتھیار اٹھالیں۔
وہ چراغِ راہ وفاہوں میں جو جلا تو جل کے بجھا نہیں
عاصمہ جہانگیر انہی دانشوروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی سماج کے تما م دشمنوں کو بے نقاب کرتی رہیں۔