سوچ بچار


عالم بالا سے اسامہ کا شاہ محمود قریشی کو خط

یا اخی! ایک ذاتی سا سوال بھی پوچھنا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا تھا، ان دنوں بھی آپ دولت الباکستان کے وزیر خارجیہ تھے۔ دس سال بعد بھی آپ وزیر خارجیہ ہو۔ ہمارے سعودی عرب میں تو سلطان بھی دس سال نہیں نکال پاتا۔ سچ پوچھو تو اتنے سال الباکستان کی مہمان نوازی کے باوجود مجھے الباکستانی سیاست، معیشت اور بالیسی خارجیہ کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔

انسانوں کے درمیان پیسے کے رشتے

’’لو میرج‘‘ اور ’’ارینج میرج‘‘ کی اصطلاحات بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ شادی والدین طے کریں یا لڑکا لڑکی کی اپنی مرضی سے ہو، فیصلہ کن کردار دولت کا ہی ہوتا ہے۔

ٹیکنالوجی: رحمت یا زحمت؟

’’گیجٹس‘‘ سے لاحق ہونے والی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں سے ہٹ کر بھی بات کی جائے تو موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے گرد گھومتی ہوئی زندگیاں، روح کی غربت کا اظہار ہیں۔

فواد چودہری! پرل ہاربر کا مقابلہ ہیروشیما ناگا ساکی سے نہیں کیا جا سکتا

لاپتہ بلوچوں کی ماؤں بہنوں کے بارے میں آپ کا شرمناک ٹویٹ پڑھا تو فوری طور پر اسرائیل ذہن میں آیا۔ صیہونی پراپیگنڈہ مشین دن رات دنیا بھر میں یہی شور مچاتی پھرتی ہے کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں، غزہ سے خود کش حملہ آور اسرائیل پر حملہ آور ہوتے ہیں…اور سب سے زیادہ گھٹیا بات یہ کی جاتی ہے کہ جو فلسطینی عرب اسرائیل میں رہ رہے ہیں (یعنی وہاں کے اسلام آباد میں)، دیکھئے اسرائیل ان کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کر رہا ہے۔

سرمایہ داری صحت کے لئے مضر ہے!

دواساز کمپنیوں کا مقصد مرض کا علاج نہیں بلکہ منافع ہے۔ ایک دواسازکمپنی کیلئے مرض میں مبتلا انسان کسی طور ایک ’’مریض ‘‘نہیں ہوتا بلکہ ایک ’’گاہک‘‘ ہوتاہے۔

انسان انسانوں میں بھی کتنا اکیلا ہے!

بیگانگی اور تنہائی کا مسئلہ بنیادی طور پر انفرادی یا شخصی نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی معاشرتی مسئلہ ہے جو اس نظام زر اور اس کے بحران سے پورے سماج کو لاحق ہے۔