امسال 5فروری کا دن پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی تاریخ میں اپنی منفرد حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ35سال سے یہ دن ’یوم یکجہتی کشمیر‘ کے نام سے منایا جاتا رہا ہے۔ عام ادوار میں انسانی سوچ اور فکر پر جمود طاری ہوتا ہے اور گزشتہ ساڑھے تین عشرے اسی دور کی غمازی کرتے ہیں۔ اس لئے حکمرانوں کی طرف سے ’یوم یکجہتی‘ بلا روک ٹوک منایا جاتا رہا ہے۔ تاہم رواں سال اس دن سے قبل ہی خطہ جموں کشمیر کے اس حصے کے باسیوں نے حکمرانوں کی نفسیات اور طرز فکر کا طلسم توڑ دیا تھا۔ عوامی شعور جب بیداری کی انگڑائی لیتا ہے تو وہ نہ صرف سوچ و فکر کے نئے زاویے تخلیق کرتا ہے، بلکہ حکمرانوں کی طرف سے دیئے گئے ہر نقشِ کہن کو تاریخ کے کوڑے دان کی نظر کر دیتا ہے۔
پاکستان
5فروری: حکمران طبقے کی کشمیریوں سے یکجہتی یا سامراجی عزائم
5فروری ہر سال پاکستان کی جانب سے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے نام پر سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔14 اگست کی طرح اس دن کومنانے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے۔میڈیا میں بھرپور تشہیری مہم چلائی جاتی ہے۔پاکستان نواز سیاسی جماعتوں کے علاوہ ان سرکاری اور نیم سرکاری کالعدم مذہبی تنظیموں کے ذریعے مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے،جن کے ہاتھ پاکستان اور جموں کشمیرکے ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔پاکستان کے حکمران طبقے اور فوجی اشرافیہ نے ایک طرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہزاروں پشتونوں کا قتل عام کیا اور ان کو بے گھر کیا،دوسری طرف انہی دہشتگردوں کو مظلوم کشمیریوں کے لیے مسیحا کی طور پر پیش کیاجارہا ہے۔
یوم یکجہتی اور یوم عوامی حقوق کے مابین تصادم اور قیادت کا دوستانہ پیغام
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ8ماہ سے زائد عرصہ سے جاری عوامی حقوق کی تحریک کی قیادت کرنے والی ’جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی‘ نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت 5فروری کو ’یوم عوامی حقوق‘ منانے کیلئے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ اعلان جنوری کے پہلے ہفتہ میں کیا گیا تھا، اور اس اعلان کی تجدید 28جنوری کو دوبارہ مظفرآبادمیں منعقدہ اجلاس میں کی گئی ہے۔
5فروری: ریاست کا قصور نہیں معاشرہ ہی اختراعی سوچ سے عاری ہے
اختراع یا انوویشن کا عمل معاشرے میں ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سماج کے ہر شعبے میں اختراعی عمل کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔بالخصوص سرمایہ دارانہ معاشرے میں صنعتی پیداوار اور پھر ڈیمانڈ کی تشکیل کیلئے مارکیٹنگ کیلئے اختراع یا انوویشن کا کردار کلیدی رہا ہے۔ ریاست بھی حکمران طبقے کے مفادات کی ترجمانی کیلئے اختراعی عمل سے گزرتے ہوئے اتنی مہارت حاصل کرتی گئی ہے کہ ایک وقت میں جبر کے آلے کے طور پر کام کرنے والی ریاست نے جبر و تسلط کو اس قدر مخفی کر دیا کہ ریاست ’ماں‘ کہلانے لگی۔ ریاست کا مقصد حالانکہ وہی رہا اور جبر کے آلے کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔
سپریم کورٹ جج جرنیلوں سے بھی مہنگے: ماہانہ تنخواہ، الاؤنس 17 لاکھ
گزشتہ سال بطور قائمقام صدر پاکستان صادق سنجرانی نے ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا۔ ’سیلری آف ججز آف سپریم کورٹ آرڈر2023‘ کے مطابق چیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ12لاکھ29ہزار189روپے کی گئی، جبکہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی تنخواہ 11لاکھ61ہزار 163روپے ماہانہ مقرر کی گئی۔ یہ آرڈیننس یکم جولائی2023سے نافذ العمل ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا ذریعہ معاش…غیبی امداد
جرنیل مشرقی پاکستان میں لاکھوں شہریوں کا قتل عام کر کے آ گئے، ملک توڑ دیا۔۔۔مگر یحیٰی خان کو مرنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ کسی بلوچ کو مار کر کسی ویرانے میں پھینک دو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ الٹا آواز اٹھاو تو خود غائب ہو جاو۔ عین اسی طرح، ہزاروں لوگ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ اور ٹی ایل پی کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ کبھی کسی مولوی کو سزا ہوئی نہ کبھی کسی جتھے کے خلاف کاروائی ہوئی۔بی ایل اے کے خلاف کاروائی کے لئے ایران سے جنگ لڑنی پڑ جائے، لڑ لیں گے لیکن تحریک طالبان پاکستان کے لئے عام معافی ہے۔
شدید سردی میں حکمران جی بی کی عوام کو بھوکا مارنا چاہتے ہیں لیکن ہم لڑیں گے: شبیر مایار
”گلگت بلتستان انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔حکمران گندم جیسی بنیادی سہولت تک رسائی بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ 17روز سے احتجاجی تحریک چل رہی ہے اور سکردو میں منفی 12سے 15درجہ حرارت کی شدیدسردی میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر دھرنا دے رہے ہیں لیکن مطالبات کی منظوری کی بجائے شیڈول فورمیں نام کے اندراج کی صورت تحفہ دیا جا رہا ہے۔ حقوق کے حصول کیلئے ہم ہر سطح تک جائیں گے۔“
شبیر مایار کا تعلق بلتستان کے ضلع کھرمنگ سے ہے۔ وہ متحرک ترقی پسند قوم پرست رہنما ہیں اور گلگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ گلگت بلتستان میں جاری حالیہ تحریک کی قیادت کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں اور ضلع کھرمنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔
یہ بیانئے کی جنگ نہیں ہے: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
مظاہرین جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور نجی ملیشیاؤں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابتدائی طورپر بالاچ کی لاش کے ساتھ تربت احتجاج جاری رہا، لیکن حکومت نے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ریلی کی شکل میں کوئٹہ کی طرف بڑھتے ہوئے مظاہرین کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور حکومت نے احتجاجی مارچ میں حصہ لینے والوں کی گرفتاریوں، من گھڑت مقدمات کے اندراج اور 44سرکاری ملازمین کو روزگار سے برطرف کر کے سخت رد عمل ظاہر کیا۔
امریکہ، اسرائیل اور غریدہ فاروقی کا سانجھا دکھ
بے گناہ، بے چارے انکل سام اورمعصوم صیہونی نازیوں کی طرح بھولی بھالی غریدہ فاروقی کو بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ ماہ رنگ بلوچ بی ایل اے کے ہاتھوں شہید ہونے والے معصوم پنجابی مزدورں کی یاد میں اسلام آباد پریس کلب میں کیمپ لگانے کی بجائے را سے ساز باز کرنے والے نام نہاد لاپتہ افراد کا ماتم کیوں کر رہی ہے۔
وہ تو شکر ہے بلوچ دھرنے کی کوریج کے لئے بھیجنے والوں نے غریدہ فاروقی کو کبھی ڈھاکہ نہیں بھیجا ورنہ وہ حسینہ واجد سے ضرور پوچھتیں کہ آپ نے ریپ ہونے والی بے شرم بنگالی عورتوں کے فحش مجسمے تو چوکوں میں لگا رکھے ہیں مگر کیا آپ مکتی باہنی کی مذمت کرتی ہیں جنہوں نے پاکستانی سپاہیوں کو شہید کیا؟
اسلام آباد بلوچ دھرنا: اتحاد، یکجہتی اور نظم و ضبط کا آنکھوں دیکھا حال
احتجاجی دھرنا کو منظم کرنے کیلئے جس رضاکارانہ نظم و ضبط، اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پولیس کی لگائی گئی خاردار تاروں کے اندر موجود احاطہ کو رسیوں کی مدد سے بلوچ رضاکاروں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ خواتین کیلئے ایک خیمہ لگایا گیا ہے، جہاں کمبل اور خود کو گرم رکھنے کیلئے دریاں اور چٹائیاں بچھائی گئی ہیں۔ خواتین کے خیمہ کو ہی دھرنے کے مرکزی پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور قیادت بھی اسی خیمہ میں موجود رہتی ہے۔سامنے کی جگہ چھوڑ کر خیمہ کے تین اطراف رسیاں لگا کر راستے بند کئے گئے ہیں اور ہر طرف بلوچ رضاکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ خیمہ کی جانب داخل ہونے کیلئے ایک جگہ رسیوں کا ہی گیٹ نما بنایا گیا ہے، جہاں ہر وقت دو بلوچ رضاکار نوجوان موجود رہتے ہیں۔ ہر کچھ گھنٹے بعد وہ نوجوان تبدیل ہوتے ہیں، لیکن خیمہ کی طرف جانے والے ہر شخص کا مکمل تعارف اور تفصیل ان رضاکار نوجوانوں کے پاس نوٹ بک پر درج ہوتی ہے۔ میڈیا کے علاوہ اہم شخصیات، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور خواتین کو اس راستے سے خیمہ کی طرف جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔