پاکستان


بات مارشل لا کی طرف جا سکتی ہے

عسکری ریاست کا بحران اتنا بڑا ہے کہ فوج مارشل لاء لگانے کے قابل نہیں رہ چکی۔ فوج کی کوشش ہے کہ ہائبرڈ حکومت قائم کی جائے۔مصیبت یہ ہے کہ پہلے ناکام ہائبرڈ تجربے کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگلا ہائبرڈ تجربہ ابھی تو لانچ ہی ہوا نہیں اور ناکام قرار دیا جا رہا ہے۔

بلوچستان: ریاستی جبر کو للکارتی عوامی مزاحمت

حکمران طبقہ ریاست کے وجود کو اس لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ ریاست شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرتی ہے۔کہنے کوتویہ اس لئے ضروری ہے کہ تمام شہری آئین و قانون کا احترام کریں، مگر درحقیقت ریاست انسان کے جان و مال کو تحفظ دینے کے لیے نہیں بلکہ اس وقت وجود میں آئی جب سماج کی طبقات میں تقسیم ہوئی۔

عام انتخابات: محنت کشوں کیلئے کوئی پروگرام نہیں

پاکستان میں فروری کے عام انتخابات کیلئے محنت کش طبقے میں بہت کم جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ یہ جزوی طور پر اس بڑی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہے، جو انتخابات کے انعقاد کے امکانات کو گھیرے ہوئے ہے۔ بہت سے محنت کش اب بھی سمجھتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں یقین ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہوگا اور وہ مزدوروں کی بہبود کیلئے اپنے مطالبات پر آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خواتین کی قیادت میں اسلام آباد کے ایوانوں پر دستک دیتی بلوچ مزاحمت

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل عام کی تاریخ بھی نئی نہیں ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پاکستان میں دو ایسے صوبے ہیں، جہاں سب سے زیادہ افراد دکو جبری طورپر لاپتہ کیا گیا ہے اور ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر پشتونوں کو ریاستی جبر، اغواء اور ماورائے عدالت قتل عام کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم بلوچستان میں یہ سلسلہ زیادہ تر قومی محرومی کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں نظر آرہا ہے۔

اونگھتے کان اور جرس کی پکار

ماضی کے کنٹرولڈ ‘جمہوری عمل’ اور 10 انتخابات کے بعد پاکستان میں جمہوری، انسانی حقوق اور آزادیاں بڑھنے کی بجائے سلب ہوتے ہوتے سکڑتی جا رہی ہیں۔ اب تو ماضی جیسا کنٹرولڈ "آزادانہ” انتخابی عمل بھی ممکن نہی رہا ہے بلکہ 2023 میں تو علم نجوم کے بغیر ہی ہر کسی کو پتا چل گیا ہے کہ اگلی حکومت’ کس کی، کس قسم کی اور کتنے اختیارت کی حامل ہو گی۔ پاکستانی جمہوریت کی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ پانچ سال کے لئے منتخب ہوتی ہے اور وزیر اعظم کو درمیانے سالوں میں ہی چلتا کر دیا جاتا ہے۔

پاکستانی جنگوں کی متبادل تاریخ

تبصرے کے آخر میں دو معروضات کرنا چاہوں گا۔ اؤل، طارق رحمن نے ایک گروہ یا اوپری ٹولے کے حوالے سے بحث کو بہت آگے نہیں بڑھایا۔ کیا جنگ کے فیصلے بہرحال اوپر بیٹھے ٹولے ہی نہیں کرتے؟ جہاں عوام کی حمایت درکار ہو، حکمران کامیابی سے جنگی جنون پیدا کر لیتے ہیں۔ امریکہ نے جس طرح عراق پر انتہائی بلاجواز حملے کے لئے امریکی عوام کی حمایت حاصل کی، اس سے سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹولے ہی کرتے ہیں، چاہے یہ فیصلے خفیہ ہوں یا عوام کو بے وقوف بنا کر۔ اس بابت کتاب میں تھوڑی تشنگی رہ جاتی ہے۔ دوم، اس میں شک نہیں کہ 1971ء کے دوران بھٹو نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا البتہ 1965ء کی جنگ میں ان پر، اس کتاب میں، ضرورت سے زیادہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے جس کا دستاویزی ثبوت بہت متاثر کن نہیں۔

جموں کشمیر: ہتک عزت بل اسمبلی میں پیش، صحافت تنقید سے پاک ہوگی

بل کو پیچیدہ بنانے کیلئے براہ راست اخبار، ٹی وی، ریڈیو اور ڈیجیٹل و سوشل میڈیا کا تذکرہ کرنے کی بجائے الیکٹرانک آلات، ریڈیو ٹیلی گراف، ریڈیو ٹیلی فون، کیبلز، کمپیوٹر، وائرز، فائبر آپٹک، لنکیج یا لیزر بیم وغیرہ کے ذریعے تحریری علاماتی، سگنلز، تصاویر، آوازیں وغیرہ عوام تک پہنچانے کے ذرائع کو براڈ کاسٹنگ قرار دیا گیا ہے۔ براڈ کاسٹنگ کے ذرائع استعمال کر کے کسی بھی طرح کے زبانی، تحریری یا بصری شکل میں غلط اقدام، اشاعت یا غلط بیان کی سرکولیشن، جو کسی شخص کی شہرت کو نقصان پہنچائے، اسے دوسرے کے سامنے نیچا دکھانے کا باعث ہو، اسکا تمسخر اڑانے کا باعث ہو، اس پر تنقید کا باعث ہو، ناپسندیدگی، توہین یا نفرت کا باعث بن رہی ہو تو وہ ہتک عزت قرار پائے گی۔

’طالبان ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں‘

کارگل میں جھگڑے سے جان چھڑانے کے لئے نواز شریف نے 4 جولائی 1999 کو بل کلنٹن سے ملاقات کی۔ صرف بل کلنٹن ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے طالبان سے متعلق انہیں ڈکٹیٹ کیا یا نہیں۔ 6 جولائی کو واشنگٹن نے طالبان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی پابندیاں اس وقت مزید موثر ہوئیں،جب اگست کے وسط میں نواز شریف حکومت نے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر پابندیوں کا اعلان کیا۔ اکتوبر کے اوائل میں نواز شریف نے دبئی کا سفر کیا تاکہ خلیجی ریاستوں کو طالبان کی حمایت ختم کرنے اور اسامہ بن لادن کی حوالگی پر زور دینے کے اپنے منصوبے سے آگاہ کریں۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق،”شریف نے کہا کہ انہوں نے اصرار کیا کہ طالبان پاکستان میں تمام سرگرمیاں بند کر دیں، اسامہ بن لادن کو حوالے کریں، یا انہیں افغانستان چھوڑنے کے لیے کہیں، اور تمام تربیتی کیمپ بند کر دیں۔“

گلگت بلتستان کے لوگ کس قانون کے تحت گندم پر سبسڈی کا حق مانگتے ہیں؟

درحقیت جب گلگت بلتستان میں ایف سی آر کے کالے قانون کے خلاف گلگت بلتستان کے وکلاء کی قیادت میں تحریک چلائی گئی تو اس کے نتیجے میں 1972 کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کو سبسڈی دینے کا حکم دیا تھا،جس کی بنیادی وجہ علاقے کی پسماندگی تھی۔اسی کی وجہ 1947 سے 1973 تک یہاں ایف سی آر کے کالے قانون کا نفاذ تھا۔ گلگت بلتستان کے عوام کے تمام تر بنیادی انسانی جمہوری سیاسی معاشی حقوق غصب ہوئے تھے، کوئی سکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال قائم نہیں کئے گئے،نہ عدالتی نظام تھا،نہ ہی اس خطے میں الیکشن ہوتے تھے۔یہاں تک کہ خطے کی شناخت بھی ختم کرکے نادرن ایریاز کا نام دیا گیا۔

جموں کشمیر: ایڈہاک ملازمین کا روزگار ایک مرتبہ پھر سیاست کا شکار

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے حکمران آج تک محنت کشوں اور نوجوانوں کا کوئی ایک بھی بنیادی تو مسئلہ حل نہیں کر سکا،لیکن مسائل کو پیدا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔مفت تعلیم،علاج، انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت روزگار کی فراہمی میں ناکام حکمران تمام مسائل کا ذمہ دار سرکاری ملازمین کو قرار دیتے ہیں۔حکومت کی طرف سے سپیشل پاور ایکٹ کے ذریعے سرکاری ملازمین کو تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔نیا روزگار پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے برسر روزگار نوجوانوں کو روزگار سے برطرف کر کے بیروزگار نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔