پاکستان


طلبہ اور متبادل نظام سیاست

انسانی سماج نت نئی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ دانشور وہ ہوتا ہے جس کا ہاتھ ان تبدیلیوں کی نبض پہ ہو۔ یہ وہ دانشور ہیں جنھیں ان طلبہ کی سوچ کی سمجھ ہی نہیں آ رہی۔ اس لیے انھوں نے برسوں پرانا اور آزمودہ نْسخہ استعمال کیا ہے۔ مثلاً انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ طلبہ روایتی سیاست سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ انھیں اس نظام میں اپنا حصہ چاہیے۔

پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ و تناظر

طلبہ کی تحریکوں کا انقلابات میں ایک اہم ابتدایہ کا کردار بنتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کو مدِ نظررکھتے ہوئے ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔

پاکستان میں طلبہ سیاست کا عروج و زوال

منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔ جہاں پلازوں میں مختلف انٹرنیشنل برانڈ کی دکانیں ہیں، انہی پلازوں میں ڈربہ نما کمروں کو یونیورسٹی اور کالج کا نام دیا جا رہا ہے۔ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل طور پر نااہل ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بعد تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہے۔

طلبہ یونینز سے خوفزدہ کون؟

قوی امکانات ہیں اس ملک میں ناگزیر ضرورت بن جانے والی انقلابی تحریک کی پہلی چنگاری طلبہ تحریک سے ہی ابھرے گی۔ طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق کی لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد سے جوڑنا ہوگا، جو تمام تر ذلتوں اور مسائل کی جڑ ہے۔اس عظیم مقصد میں انہیں محنت کشوں اور غریبوں کے لئے اپنے دل میں عاجزی اور احترام کے جذبات پیدا کرنا ہوں گے، ان سے سیکھنا ہو گا۔ اسی صورت میں وہ محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بنا کر تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔

پاکستان: 62 فیصد نوجوان طلبہ یونین کے حق میں ہیں!

یہ ایک نجی ادارے کا چند گھنٹوں کا سوشل میڈیا کا سروے ہے جس کا نتیجہ ہمارا سامنے واضح ہے اور یہی حقیقت ہے کہ پاکستان میں طلبہ کی اکثریت یونین سازی کے نہ صرف حق میں ہے بلکہ اب وہ یہ حق چھیننے کے لیے بھی تیار ہے جس کا اظہار 29 نومبر کو درجنوں شہروں میں ہونیوالے طلبہ یکجہتی مارچ میں ہوگا۔

یہ نعرے تو کب سے لگ رہے تھے!

یہ مارچ لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں تعلیمی نجکاری، ہوش ربا تعلیمی اخراجات اور سرکاری تعلیمی کٹوٹیوں کے خلاف نکالے جا رہے ہیں۔ لاہور میں بھٹہ اور دیگر مزدور بھی اس مارچ میں اپنے مطالبات کے ساتھ جو کم از کم تنخواہ کی ادائیگی کے ارد گرد ہیں، اس مارچ میں شریک ہو رہے ہیں۔

دھرنا ختم ہوا ہے تحریک انصاف کی مشکلات نہیں!

مولانا کے دھرنے کے یک طرفہ خاتمے سے یہ حکومت کوئی مضبوط نہیں ہو گی کیونکہ اس کی کمزوری کی وجوہات اپنی جگہ موجود ہیں۔ معاشی بحران بڑھ رہاہے اور مہنگائی تو نئے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ نیو لبرل ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد کرانے کی تیاریاں ان کے لئے مزید مشکلات پیدا کریں گی۔