پاکستان


زندگی تماشہ: بنیاد پرست توہین کے نام پر سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں

مذہب کے نام پر بننے والے ہر قانون اورمذہب کے نام پر ہونے والے ہر احتجاج کا اصل مقصد ہوتا ہے اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ۔ یہ مقصد مذہبی قوتیں ہر بار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اس لئے ”زندگی تماشہ“ پر ہونے والا تنازعہ سے محض اظہارِ رائے، ریاست کی کمزوری اور آرٹ یا مٹھی بھر مولویوں کی اصطلاح استعمال کر کے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔

پی ٹی ایم دوبارہ اپنے راستے پر گامزن

ان دونوں نے پارلیمنٹ میں ایکسٹینشن ترمیم کے خلاف ووٹ دے کر ان تمام ناقدین کے منہ بند کر دئیے تھے جو یہ کہ رہے تھے کہ انہوں نے مصالحت کر لی ہے اور یہ کہ پی ٹی ایم اب ختم ہے۔ اس ووٹ کے بعد یہ ان کا ایک بڑا عوامی اجتماع تھا جس کی موبلائزیشن کئی اضلاع میں کی گئی تھی اور کئی ہفتوں سے اس جلسے کی تیاریاں جاری تھیں۔

بوٹ کو عزت دو

یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اگر یہ آئینی ترمیم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مدد سے منظور ہو گئی تو اس سے ان دونوں جماعتوں کا ماضی میں بار بار دیا جانے والابیانیہ کمزور ہو گا اور دونوں کو عوام اور انکے کارکنوں کی شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا۔

2020ء جلسے جلوسوں، مظاہروں اور تحریکوں کا سال ہو گا

اگلا دور کافی دلچسپ ہو گا، نجکاری کے خلاف سخت مزاحمت ہو گی اور طلبہ یونینوں کی بحالی ملک میں طلبہ تحریک کے ابھرنے کے امکانات کو روشن کرے گی۔ سیاسی فضا میں دیر بعد اب سرخ رنگ بھی نظر آنے لگا ہے۔ یہ محنت کش طبقات کی جدوجہد کا دور ہو گا۔

رجعتی دور کے تقاضے

ہم آج ایک مشکل اور رجعتی رد انقلابی دور سے گزر رہے ہیں اس میں تو بات کرنا بھی مشکل ہو رہی ہے مگر ایسے ہی دور میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔ رجعتی دور کی حکمت عملی وہ نہیں ہو تی جو انقلابی دور کی ہوتی ہے۔ ہمیں جہاں اس مشکل دور کامقابلہ کرناہے وہیں ہمیں اپنے سوشلسٹ انقلابی نظریات کو فروغ دیتے ہوئے سرمایہ داری اورجاگیرداری کو بے نقاب بھی کرنا ہے۔

وقت بدلتے وقت نہیں لگتا

آئی ایس پی آر اسے فوج پر حملے سے گردان رہی ہے۔ ایسے کہا جا رہا ہے جیسے کسی حاضر سروس جرنیل کے خلاف فیصلہ آیا ہو۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل جو وردی اتار کر سویلین صدر بننے میں پورا زور لگاتا رہا ہواسے اب دوبارہ وردی پہنائی جا رہی ہے۔

جنرل مشرف کو سزائے موت: ابھی آغاز ہے، انتہا دیکھنی باقی ہے

ایک آمر کے خلاف یہ فیصلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس فیصلے سے اب راہیں کھل گئی ہیں۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اس فیصلے سے حکمرانوں میں جو کھلبلی مچی ہے اس کا سیاسی اظہار ہونا ابھی باقی ہے۔

سانحہ پشاور: مذہبی جنونیوں سے مذاکرات سب پر بھاری رہیں گے

مذہبی دہشت گردی کی مبلغین تنظیموں کو بنانے اور مظبوط کرنے میں بھی یہ سامراجی ممالک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب یہی قوتیں ان سے مذاکرات چاہتی ہیں۔ جو شاید ان کے آج کے مفادات کے لئے بہتر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مذہبی جنونیت کو مذاکرات کے ذریعے ”جمہوری“ بنا سکیں یا ان کو پارٹنر بنا کر ان کی نفسیات تبدیل کر سکیں۔ ان کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کی ضرورت ہے جو یہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔