یہ وقت یہ سوال اٹھانے کا ہے کہ ہم اس حال اور انجام کو کیسے پہنچے۔
پاکستان
ملاں تے مشالچی…
کرونا وبا پھوٹنے کے بعد ملاؤں نے بار بار یہ ثابت کیا کہ وہ اندھیرے میں ہیں۔
معاملہ اکیڈیمک آزادی کا
مجھے میری برطرفی کی یہ وجہ پتہ چلی کہ میں ”بہت سیاسی“ ہوں۔
کرونا وائرس: لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ سرمایہ دارانہ بے حسی ہے
بیورو کریٹس اور ججز کی مراعات، تنخواہوں اور پنشن میں کٹوتی اوردفاعی بجٹ، جرنیلوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مراعات میں 2 ماہ کے لئے کمی۔
کرونا پر مولانا طارق جمیل کو خط
آپ کے منہ سے میں نے کبھی سرمایہ داروں کے خلاف یا مزدوروں کے حق میں کوئی ویڈیو اور آڈیو بیان جاری ہوتے نہیں دیکھا۔ آپ ہی کیا، آج تک کبھی کسی مذہبی جماعت یا مولوی نے یہ کہہ کر چندہ لینے سے انکار نہیں کیا کہ چندے کے پیسے استحصال، ناجائز کمائی یادھونس دھاندلی سے بنائے گئے ہیں۔
بے شرم حکمرانو! عوام کو اجتماعی دعائیں نہیں، اجتماعی دوائیں چاہئیں
ایک فوری دعا تو یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضے معاف ہو جائیں۔
آخری سانس تک لال
لال خان کو عالمی تاریخ اور سیاسی و سماجی تحریکوں کا وسیع علم تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے جو مجھے کہا…
پاکستان میں انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے جو صنعتی، اقتصادی اور معاشی اصلاحات کیں، وہ اصلاحات ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی کی یادگار ہیں، جن میں پاسپورٹ کو عام آدمی کو فراہم کرنے سے لے کر کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینا تک شامل ہیں۔ انہوں نے ملٹی پارٹی سسٹم میں رہ کر پاکستان کو عملاً سوشلسٹ اصلاحات سے متعارف کروایا جو کہ مذاق نہیں۔ اس کی مختصر تفصیل اُن کی کتاب The Mirage of Power میں پڑھی جاسکتی ہے۔
طلبہ یکجہتی مارچ: غداری کے مقدمہ میں فاروق طارق، عمار جان اور شبیر کی ضمانتیں منظور، کامل خان کی ضمانت منسوخ
مسلسل پیشیوں کے بعد گذشتہ روز کامل خان کی ضمانت منسوخ کر دی گئی۔ کامل خان کا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہ گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ڈاکٹر عمار علی جان اور فاروق طارق نے اپنے اپنے فیس بک بیانات میں کامل خان کی ضمانت منسوخ ہونے کے خلاف آج لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
راجہ گدھ : منطق پر بانو قدسیہ کا ادبی حملہ
اگر طالبان اور دیگر گروہوں کو ہم ضیا آمریت کی سیاسی باقیات کہتے ہیں تو ’راجہ گدھ‘ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکاروروں کی انیس سو اسی میں تصنیف کی گئی تحریروں کو ہم ضیا عہد کی ادبی باقیات قرار دے سکتے ہیں۔ ’راجہ گدھ‘ ان باقیات کا سرخیل ہے۔