بجٹ میں کم از کم دس فیصد صحت اور بیس فیصد اس بحران سے نپٹنے کے لئے محنت کشوں کے لئے مختص ہو۔ بے روزگار ہونے والے افراد کو، بعض دیگر ممالک کی طرح، کم از کم ماہانہ تیس ہزار روپے آئندہ چھ ماہ تک دئے جائیں۔

بجٹ میں کم از کم دس فیصد صحت اور بیس فیصد اس بحران سے نپٹنے کے لئے محنت کشوں کے لئے مختص ہو۔ بے روزگار ہونے والے افراد کو، بعض دیگر ممالک کی طرح، کم از کم ماہانہ تیس ہزار روپے آئندہ چھ ماہ تک دئے جائیں۔
جب تک عام آدمی کو سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنایا جاتا اس وقت تک جمہوریت کے ثمرات عام آدمی کی زندگی بدلنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع ابلاغ پر بھی سرمایہ دار حکمران طبقے کا اسی طرح قبضہ ہے جیسے ذرائع پیداوار پر ہے۔
عارف وزیر کا قتل حکمران طبقے کی طرف سے اشتعال انگیزی کا واضح اظہار ہے۔ وہ پشتون نوجوانوں کو مہم جوئی کے لئے اکسانا چاہتے ہیں تاکہ حکمرانوں کو تحریک کو جسمانی اور سیاسی طور پر روکنے کے لئے ایک آسان بہانہ فراہم ہوسکے۔ لیکن تحریک کی قیادت کو جذبات کو ٹھنڈا رکھنا ہوگا۔ انہیں اپنے دوستوں اور دشمنوں میں فرق کرنا ہوگا۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے اصل دوست اس ملک کے مظلوم طبقات ہیں نہ کہ کسی ملک کے حکمران۔ انہیں مظلوم محنت کش عوام کی انقلابی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ تمام مظلوم عوام کی اجتماعی تحریک ہی اس خونی قتل عام کو ختم کرسکتی ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے دو ارکان ایک نعش دارالحکومت سے اٹھا کر وزیرستان تک لے گئے، ہزاروں افراد تدفین کے عمل میں شریک رہے۔
ایک نئے جنم کی امید لئے
۔ آپ پاکستان کے کسی بھی سیاستدان کا نام لے لیں تو وہ چینی کی صنعت کا سرمایہ دار نکلے گا۔ اس دھندے میں پنجاب کا تقریباًہر سیاسی خاندان، لاہور کے شریفوں سے لے کر گجرات کے چودھریوں تک اور سرگودھا کے چیموں سے لے کر جہانگیر ترین تک شامل ہیں۔ یہاں ہمایوں اختر اور اس کے اہل خانہ کا نام مت بھولیں۔
ایک ہی حل ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑتے ہوئے یہاں ایک منصوبہ بند معیشت قائم کی جائے۔
بھی کبھی سوچتی ہوں میری ’بے حیائی‘ تو دکھائی دیتی ہے مگر میری محنت کا استحصال اور میری جنس کا ہراس ہونا آپ کو کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ جو سرمایہ دار مالک میرا ہر دو طرح کا استحصال کرتا ہے وہ آپ کی نظر میں بے حیا نہیں بنتا کیونکہ وہ آپ کی تبلیغی جماعت کو چندہ دیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی پریس اور پاکستانی میڈیا اس خبر پر خاموش رہا۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین مقامی صحافیوں کو بے ضمیری اور لفافہ صحافت کا طعنہ بھی دیتے رہے۔