کہیں کسی خاتون کو کسی جگہ کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا نہیں تھا۔ سب شانہ بشانہ چل رہے تھے۔

کہیں کسی خاتون کو کسی جگہ کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا نہیں تھا۔ سب شانہ بشانہ چل رہے تھے۔
کامریڈ ڈاکٹر یثرب تنویر گوندل کی وفات پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کا جائزہ لینے کا بھی ایک موقع ہے۔
اس نعرے کی اساس یہ سوچ ہے کہ عورت کو ایک با عزت اوربا وقار زندگی گزارنے کا مکمل اختیار ہے۔
عورتوں کے عورت مارچ سے گھبرا کر رجعتی سوچوں کے علمبردار خلیل الرحمان قمر نے ماروی سرمد کے ساتھ انتہائی غلیظ زبان استعمال کی ہے، اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ خلیل ا لرحمان قمر کی سوچ یہ ہے کہ عورت سے بد تمیزی سے بات کرنا، اس کو اپنے سے کمتر سمجھنا، عورت پر ہاتھ اٹھانا اوراس کو گالیاں دینا مرد کا حق ہے۔ عورت مارچ اس گھٹیا سوچ کے خلاف ہمارا جواب ہے۔
سنٹرل لائبریری کی عمارت اطالوی اور اسلامی طرز تعمیر کی آمیزش کا شاندار نمونہ ہے۔
ڈاکٹر لال خان طبقاتی جدوجہد کے سْرخیل ٹھہرے، پچھلی تین ساڑھے تین دہائیوں میں ڈاکٹر لال خان لاہور کی مجلسی زندگی کی رونق رہے۔
لال خان ایک شاندار مقرر تھے اور کوئی بھی ان کی مارکسی تاریخ کے علم سے میل نہیں رکھتا تھا۔ وہ بالشوازم خاص طور پر لیون ٹراٹسکی کی ایک سیاسی لغت تھے۔ نوجوانوں کو تحریک دینے کی ان میں کرشماتی صلاحیت موجود تھی۔ وہ بغیر نوٹس کے گھنٹوں اپنے سامعین کو مسحور رکھنے پر قادر تھے۔ ان کی تنظیم ”طبقاتی جدوجہد“ کی اٹھان میں ایوان اقبال لاہور میں منعقد کردہ سالانہ کانگریسوں کو خصوصی اہمیت حاصل رہی جس میں سینکڑوں مندوب دو دن کیلئے جمع ہوتے اور پاکستان کے سیاسی تناظر میں تنظیمی اور سیاسی ترجیحات کا تعین کیا جاتا۔
کامریڈ لال خان اپنی سوچ، سیاسی فکر اور مارکسی نظریات کے ساتھ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ہم کسی قیمت پر ان کے متعین کئے ہوئے راستے سے نہیں ہٹیں گے اور جس سرخ پرچم کو سینے پر سجا کر وہ وداع ہوئے اسی لال پرچم کو بلند کئے ہم جئیں گے اور اسی کے ساتھ مریں گے۔
آج بختیار لیبر ہال میں محمود بٹ کے ساتھی مزدور اور انقلابی کامریڈ اسے خراجِ عقیدت پیش کرنے صبح دس بجے اس عہد کے ساتھ جمع ہوں گے کہ محمود بٹ کی جدوجہد جاری رہے گی۔ گذشتہ اتوار کو ہونے والا فیض امن میلہ جو گذشتہ سال سے بھی کہیں بڑا تھا، محمود بٹ کے ساتھیوں کے اسی عہد کا ایک عملی اظہار تھا۔
دہشت گردی نے شہر کا کلچر بدل کر رکھ دیا ہے۔