زیادہ تر فاقوں سے تنگ آکر کی جانے والی خودکشیاں ہوتی ہیں۔
پاکستان
سٹی 42 میں تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی: رضوان ملک کا المیہ
ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی، تنخواہوں میں کٹوتی، چھانٹیاں، یونین سازی کی کمی، اخباری اور ٹیلی وژن کارکنوں کا شرمناک استحصال!
احسان اللہ احسان کا فرار اور لال مسجد: ایک کہانی دو قسطیں
بہت سے دہشت گرد مارے ضرور گئے مگر یہ وہ لوگ تھے جو ریاست کے قابو میں نہیں رہے تھے۔ ان معروضی بنیادوں کو ختم نہیں کیا گیا جو دہشت گردی کو جنم دیتی ہیں۔ دہشت گردی کی ایک اہم وجہ بنیادپرست اور مذہبی جنونی قوتوں کی سرکاری سر پرستی ہے۔
’’سالگرہ پر تحفے کے لئے عمران خان کی پولیس تیرا شکریہ‘‘
ہماری گرفتاری کی خبر نہ تو پرنٹ اور نہ ہی مقامی الیکڑانک میڈیا نے دی۔
زندگی تماشہ: بنیاد پرست توہین کے نام پر سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں
مذہب کے نام پر بننے والے ہر قانون اورمذہب کے نام پر ہونے والے ہر احتجاج کا اصل مقصد ہوتا ہے اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ۔ یہ مقصد مذہبی قوتیں ہر بار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اس لئے ”زندگی تماشہ“ پر ہونے والا تنازعہ سے محض اظہارِ رائے، ریاست کی کمزوری اور آرٹ یا مٹھی بھر مولویوں کی اصطلاح استعمال کر کے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔
پی ٹی ایم دوبارہ اپنے راستے پر گامزن
ان دونوں نے پارلیمنٹ میں ایکسٹینشن ترمیم کے خلاف ووٹ دے کر ان تمام ناقدین کے منہ بند کر دئیے تھے جو یہ کہ رہے تھے کہ انہوں نے مصالحت کر لی ہے اور یہ کہ پی ٹی ایم اب ختم ہے۔ اس ووٹ کے بعد یہ ان کا ایک بڑا عوامی اجتماع تھا جس کی موبلائزیشن کئی اضلاع میں کی گئی تھی اور کئی ہفتوں سے اس جلسے کی تیاریاں جاری تھیں۔
پی ایف یو جے کی قیادت میں صحافی آج ملک گیر احتجاج کریں گے
کارکنوں نے اپنے معاشی حقوق و صحافت کی بقا کے ساتھ ساتھ سیٹھ کے مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے تو یہ تحریک نہیں چلے گی۔
بوٹ کو عزت دو
یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اگر یہ آئینی ترمیم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مدد سے منظور ہو گئی تو اس سے ان دونوں جماعتوں کا ماضی میں بار بار دیا جانے والابیانیہ کمزور ہو گا اور دونوں کو عوام اور انکے کارکنوں کی شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑے گا۔
2020ء جلسے جلوسوں، مظاہروں اور تحریکوں کا سال ہو گا
اگلا دور کافی دلچسپ ہو گا، نجکاری کے خلاف سخت مزاحمت ہو گی اور طلبہ یونینوں کی بحالی ملک میں طلبہ تحریک کے ابھرنے کے امکانات کو روشن کرے گی۔ سیاسی فضا میں دیر بعد اب سرخ رنگ بھی نظر آنے لگا ہے۔ یہ محنت کش طبقات کی جدوجہد کا دور ہو گا۔
رجعتی دور کے تقاضے
ہم آج ایک مشکل اور رجعتی رد انقلابی دور سے گزر رہے ہیں اس میں تو بات کرنا بھی مشکل ہو رہی ہے مگر ایسے ہی دور میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔ رجعتی دور کی حکمت عملی وہ نہیں ہو تی جو انقلابی دور کی ہوتی ہے۔ ہمیں جہاں اس مشکل دور کامقابلہ کرناہے وہیں ہمیں اپنے سوشلسٹ انقلابی نظریات کو فروغ دیتے ہوئے سرمایہ داری اورجاگیرداری کو بے نقاب بھی کرنا ہے۔