عمران خان کا بیان نہ صرف پاکستانی میڈیا کے کارکنوں اور عوام کے روز مرہ تجربات کی نفی کرتا ہے بلکہ اعداد و شمار کی روشنی میں بھی ایک سنگین مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔

عمران خان کا بیان نہ صرف پاکستانی میڈیا کے کارکنوں اور عوام کے روز مرہ تجربات کی نفی کرتا ہے بلکہ اعداد و شمار کی روشنی میں بھی ایک سنگین مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔
مریم نواز کی گرفتاری ایک سیاسی انتقامی کاروائی ہے۔ اس کا احتساب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نواز شریف خاندان کو سبق سکھانے کا ایک اور واقعہ ہے۔
افتخار کربلائی سانحہ ہنزہ کیس میں نامزد ملزم ہیں۔ وہ قراقرم نیشنل موومنٹ کے رہنما ہیں۔
غور کیا جائے تو اگر مولانا مذہبی حلقوں کے عمران خان ہیں تو عمران خان سیاست کے مولانا طارق جمیل ہیں۔
وزارت خارجہ نے عمران خان کو بریف نہیں کیا یا ڈونلڈ ٹرمپ کی صحبت کا اثر تھا کہ عمران خان نے یہ بیان دیا مگر یہ بات طے ہے کہ ان کا یہ جواب پاکستانی حکمران طبقے کا پیچھا کرتا رہے گا۔
جب اینکر اور ٹی وی مالکان آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی ریٹنگ گر رہی ہے۔ ان کو آزادی افکار سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
اول تو ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ صرف 28 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ دوسرا یہ تاثر بھی موجود ہے کہ حکومتی امیدواروں کو جتوانے کے لئے بڑے پیمانے پر نتائج میں رد و بدل کیا گیا ہے۔
پاکستانی سرمایہ داری کا بحران جتنا بڑھ گیا ہے اور نئے پاکستان کے حکمران جس قدر نااہل ہیں اس کے پیش نظر اب یہاں دکھاوے کی ترقی کی گنجائش بھی نہیں رہی ہے۔
اس وقت کی بلوچستان حکومت میں شریک بہت کم افراد کو علم تھا کہ ان کی صوبائی حکومت کسی غیر ملکی کمپنی سے دھاتوں کی تلاش میں کھدائی کا کوئی معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔
بائیس جولائی کی ملاقات سے قبل عمران خان کو فقط یہ یاد دلانا تھا کہ وہ اپنا سی این این کو دیا ہوا انٹرویو مت بھولیں۔