”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں پچھلے کچھ دنوں میں بہت تیزی سے بوڑھی ہوئی ہوں۔“

”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں پچھلے کچھ دنوں میں بہت تیزی سے بوڑھی ہوئی ہوں۔“
یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ طالبان کی داغ بیل میں پاکستان، امریکہ، سعودی عرب اور اتحادیوں کا ہاتھ تھاجنہیں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کے طور پر استعمال کیا گیا۔ امریکی قبضے کے خلاف جب یہی طالبان میدان میں اترے تو انہیں دہشت گرد کا نام دیا جانے لگا۔ اب نئے حالات میں امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں بھی پیش پیش ہو گا اور شاید چین، روس اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہیں۔
کوئی بات بھی یقینی نہیں لیکن جو رحجانات نظر آ رہے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طالبان کا اقتدار دنیا بھر کی ترقی پسند قوتوں کے لئے بری خبر ہے۔
سپیشل فورسز کے افسروں کو دونوں اطراف سے خطرہ تھا کہ اگر طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے تو حکومت کی طرف سے طالبان کو بیچ دیئے جائیں گے۔ پولیس افسران کو 6 سے 9 ماہ کی تنخواہیں نہیں دی گئی تھیں، ایسے میں طالبان کی جانب سے ادائیگیاں مزید پرکشش ہو گئی تھیں۔
تری نظرکے سمندر سے تشنہ کام آئے
طالبان نے کہا کہ پاور شیئرنگ اگر اتنی ضروری ہوتی ہے تو پھر پاکستان میں بھی عوام کی کچھ فیصد حمایت تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو بھی ملی ہے، اس حساب سے آپ بھی اقتدار میں کچھ حصہ انہیں بھی دے دیں۔
”خاموشی مار رہی ہے، میرے دل میں ایک عجیب سا خوف ہے۔ کابل کی خاموشی پریشان کن اور بے سکون کرنے والی ہے۔ میں سو نہیں سکی، میرے دل پر بہت زیادہ بوجھ ہے کیونکہ مستقبل غیر واضح ہے۔“
طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ تشدد سے گریز کریں اور کابل چھوڑنے کے خواہشمندوں کو محفوظ راستہ دیں۔
ماں نے شلوار قمیض پہنا دی۔ وہ شلوار قمیض سے بھی مطمئن نہ ہوا۔ سر پر کالے رنگ کی پگڑی بھی باندھ لی۔ فر فر چار زبانیں بولنے والا تنویر بھلے کابل میں رہتا ہے لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے بالکل انٹرنیشنلسٹ ہے۔
طالبان اب پاکستان میں بھی طاقت پکڑیں گے جبکہ افغانستان میں دوحہ معاہدے کے بعد طالبان کی ’کامیابی‘ امریکی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس کا مقصد چین کو نشانہ بنانا ہے۔