پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک سال تک جاری رہنے والی عوامی حقوق تحریک نے تمام تر سامراجی جبر اور بربریت کا سامنا کرتے ہوئے بالآخر ریاست کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ طاقت کے ذریعے تحریک کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی گئی تاہم عوامی طاقت کے سامنے مسلسل 5 روز تک ریاست مکمل طور پر مفلوج رہی۔ وزیراعظم اور وزرا سمیت ممبران اسمبلی جموں کشمیر سے فرار ہو چکے تھے۔ افسران نے اپنی سرکاری گاڑیاں چھوڑ کر نجی گاڑیوں میں سفر شروع کر دیا تھا۔ پولیس کو مسلسل ہونے والی شکست اور بڑے عوامی ریلے کی دارالحکومت مظفرآباد کی جانب پیش قدمی کے چلن دیکھ کر لانگ مارچ کو پہلے پہل غیر ملکی ایجنڈا اور سازش قرار دینے والے حکمران اشرافیہ کے نمائندوں نے حکومت سے لاتعلقی اختیار کرنے اور عوامی تحریک کے حق میں بیانات دینے شروع کر دیئے تھے۔ پورا معاشرہ یکلخت ایک بلند تر سیاسی شعور، نئی اخلاقیات، بدلی ہوئی نفسیاتی کیفیت اور اجتماعی و اشتراکی ثقافت کے رنگ میں رنگتا جا رہا تھا۔