گزشتہ روز بڑے بھائیوں کے آشرباد سے چلنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چلنے والی ایک وڈیو نظر سے گزری۔ ویڈیو میں جموں کشمیر میں موجود حریت پسندوں اور انقلابیوں کو انتشاری ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ وڈیو میں راولاکوٹ سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک رہنما کا ایک کلپ بھی شامل کیا گیا تھا،جس میں جناب سرخ جھنڈے اور نظریات سے بیزاری کا اظہار کر ہے تھے۔
Day: مئی 27، 2024
کیا پاکستانی سوشلسٹ ہمیشہ کے لئے ناکام ہیں؟
دریں اثنا،گذشتہ دس پندرہ سال میں بائیں بازو نے کسی حد تک اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ نہ صرف ملک بھرکی یونیورسٹیوں میں طلبہ سیاست میں بائیں بازو کے گروہ متحرک ہیں، بعض کارکن ملک بھر میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک میں کوئی بڑا ابھار دیکھنے میں نہیں آیا لیکن کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بائیں بازو کی قیادت میں لڑی گئی ہیں۔علی وزیر کی شکل میں بایاں بازو وفاقی پارلیمنٹ تک بھی پہنچا۔ بائیں بازو کے نظریات میں پہلے کی نسبت نوجوان طبقے کی دلچسپی بڑھی ہے۔ دانشور طبقے میں بھی ایسے افراد نظر آتے ہیں جو مارکس وادی نظریات سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
بھنسالی کی ہیرا منڈی میں لاہور کا ’ماتم‘
بھارتی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز ‘ ہیرا منڈی: دی ڈائمنڈ مارکیٹ’ کی تعریف اور تنقید دونوں جاری ہیں۔
اس فلم کی کہانی،اس کے کرداروں کی پرفارمنس، اس کی موسیقی،سکرین پلے کی تکنیک کے حوالے سے اس کی خوبیاں اور خامیاں، یہ سب اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔میں یہاں تقسیم سے پہلے والے اس لاہور کے بارے میں بات کروں گا، جوہندووں،سکھوں،مسلمانوں،انگریزوں،اینگلو انڈین نسل اور پارسیوں کے دلوں میں دھڑکتا تھا۔
”ہیرا منڈی“ میں جو شہر دکھایا گیا ہے وہ کس کا شہر ہے؟ اس کو کس کی نظر سے دکھایا گیا ہے؟سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ فلم نے شہر کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔