رقصِ بسمل کا اہتمام کرو
مزید پڑھیں...
عاصمہ جہانگیر اور اوکاڑہ مزارعین کی جدوجہد
شاید یہ جنرل مشرف کے خلاف پہلی بڑی عوامی تحریک تھی جس کا آغاز پنجاب سے ہوا تھا۔
”ہمت تھی تو مجھے پکڑتے“
جج صاحب کو انہوں نے خوب سنائیں، تم آمریت کے پروردہ ہو ابھی تک تمہیں عقل نہیں آئی۔
وقت بدلتے وقت نہیں لگتا
آئی ایس پی آر اسے فوج پر حملے سے گردان رہی ہے۔ ایسے کہا جا رہا ہے جیسے کسی حاضر سروس جرنیل کے خلاف فیصلہ آیا ہو۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل جو وردی اتار کر سویلین صدر بننے میں پورا زور لگاتا رہا ہواسے اب دوبارہ وردی پہنائی جا رہی ہے۔
قصّہ خاندانِ غلاماں کا!
ہم سب نے فیصلہ کیاہے کہ رفیقی کی حمائت جاری رکھیں گے مگر انکل سے لڑا ئی بھی مناسب نہیں ہے۔
جنرل مشرف کو سزائے موت: ابھی آغاز ہے، انتہا دیکھنی باقی ہے
ایک آمر کے خلاف یہ فیصلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس فیصلے سے اب راہیں کھل گئی ہیں۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اس فیصلے سے حکمرانوں میں جو کھلبلی مچی ہے اس کا سیاسی اظہار ہونا ابھی باقی ہے۔
سانحہ پشاور: مذہبی جنونیوں سے مذاکرات سب پر بھاری رہیں گے
مذہبی دہشت گردی کی مبلغین تنظیموں کو بنانے اور مظبوط کرنے میں بھی یہ سامراجی ممالک اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب یہی قوتیں ان سے مذاکرات چاہتی ہیں۔ جو شاید ان کے آج کے مفادات کے لئے بہتر ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مذہبی جنونیت کو مذاکرات کے ذریعے ”جمہوری“ بنا سکیں یا ان کو پارٹنر بنا کر ان کی نفسیات تبدیل کر سکیں۔ ان کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کی ضرورت ہے جو یہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔
میں سوشلسٹ کیسے بنی؟
ایک ایسے نظام کا دفاع کرتا ہے جو بہت سارے جسمانی اندھے پن اور بہرے پن کا سبب ہے جس کو ہم روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رجعتی گروہی مفادات پر منظم پروفیشنل گروپ کی ہلڑ بازی کے منفی نتائج سب کو بھگتنے پڑتے ہیں
دو پروفیشنل گروہوں کے درمیان اس تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کانقصان ہو رہاہے۔ ریاست اس کو جان بوجھ کر موجودہ حکومت کی کوتاہیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے خوب استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے عوامی اور پبلک سیکٹر کی تحریکوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں سینکڑوں صحافی قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں: عالمی تنظیم کی نئی رپورٹ
جدید دور کی ٹیکنالوجی نے جہاں آج میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے وہاں ان کے لئے نئی مشکلات بھی کھڑی کر دی ہیں۔