”اگر ہم ہر چیز میں مذہب ڈھونڈیں گے تو پھر گاڑی میں پٹرول ڈلوا سکیں گے نہ تن کو کسی لباس سے ڈھانپ سکیں گے۔‘‘

”اگر ہم ہر چیز میں مذہب ڈھونڈیں گے تو پھر گاڑی میں پٹرول ڈلوا سکیں گے نہ تن کو کسی لباس سے ڈھانپ سکیں گے۔‘‘
اکمل شہزاد گھمن نے اپنی کتاب ’میڈیا منڈی‘ میں پاکستان میں کارپوریٹ میڈیا کی سیاسی معاشیات کا جائزہ لیا ہے۔
وجہ کچھ بھی ہو‘ ایسے اشتہار عمومی طور پر ریاستی بیانیے کے عکاس ہیں۔ ان کے ذریعے عوام کو اچھی طرح ذہن نشین کروایاجاتا ہے کہ عوام ریاست کے لئے ہیں نہ کہ ریاست عوام کے لئے۔
ماہرہ خان ہوں یا بلال اشرف دونوں کے رد عمل سے تو لگتا ہے کہ ان کے نزدیک نہ غربت کوئی مسئلہ ہے نہ غریبوں کی ہتک۔
کشمیر نہرو کے ضمیر پر بوجھ تھا۔ نہرو نے دہلی میں شیخ عبداﷲ سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ اپنی زندگی میں مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں…
بھارتیہ جنتا پارٹی نے کمال مہارت سے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نام نہاد آئین و قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے یہ اقدام کیا ہے۔
ہندوستان کا یہ قدم دراصل پاکستان کو بھی جواز مہیا کرتا ہے کہ وہ اپنے زیرِ قبضہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو اپنے اندر ضم کرلے۔
دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ اس مسئلے کو حل کر چکا ہے۔ حل یہ ہے کہ جموں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اسٹیٹس کو برقرار رکھا جائے۔
گزشتہ چند دنوں سے پوری ریاست کو یرغمال بنا کر لوگوں کو دہشت زدہ کر کے اس تبدیلی کے لئے تیاری کی جا چکی تھی۔
اسلم کولسری اوکاڑہ کے نواحی گاؤں کولسر کے رہنے والے تھے۔ یہ اس علاقے میں تھا جس پر اوکاڑہ کینٹ بنا اور اس گاؤں کا وجود ہی ختم ہوگیا مگر اسلم کولسری کے دس مجموعے اس گاؤں کی یاد سے معطر ہیں۔