نقطہ نظر

امریکہ میں جاری مظاہرے ٹرمپ کی شکست کا باعث بن سکتے ہیں: مصطفی کیرل

قیصر عباس

پولیس کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے نتیجے میں سیاہ فام امریکی جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد سے پورے امریکہ میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اورروزانہ تمام بڑے شہروں میں احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں لوگ بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اور کئی ہلاکتوں کی بھی اطلاع ہے۔

ادھر صدر ٹرمپ نے جمعرات کو ڈیلس میں اس صورت حال پر کئے گئے ایک پروگرام میں پھر اس مسئلے کو قومی سطح پر تعصب اور امتیازی سلوک کامسئلہ تسلیم کرنے کی بجائے اسے پولیس کے چند اہلکاروں کا مسئلہ قرار دے کر اقلیتوں اور افریقی نژاد امریکیوں کو مزید مزاحمت کا موقع فراہم کیاہے۔ اگرچہ اپنی تقریر میں انہوں نے افریقی ا لنسل اور لاطینی ا مریکی شہریوں کی امداد کا اعلان بھی کیا لیکن مسئلے کے حل کے لئے اپنے انتظامی اور قانونی سخت موقف کو ہی دہرایا اور اسے ایک سماجی مسئلہ تسلیم کرنے سے گریز کیا۔

کیا یہ بحران اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخاب پر بھی ا ثر اندازہو سکتاہے؟

امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں افریقی النسل مسلم رہنما مصطفی کیر ل (Mustafaa Carroll) کے خیال میں موجودہ سیاسی بحران کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔

روزنامہ جدوجہدسے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ”مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف غم و غصہ سیاسی تبدیلی لائے گا اورآنے والے انتخابات میں لوگ بڑی تعداد میں گھروں سے نکل کر ووٹ کی طاقت سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نکال باہر کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے ہر موڑ پر ثابت کیا ہے وہ قوم کی رہبری کے لائق نہیں ہیں۔“

مصطفی کیرل کا تعلق امریکی ریاست انڈیانا سے ہے جہاں سے انہوں نے اپنی کمیونٹی کے لئے 14 سال کی عمر سے فلاحی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا جب وہ اسکول میں تھے۔ دوسال بعد ہی وہ نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیوپل (این اے اے سی پی) کی یوتھ کونسل کے صدر منتخب ہوئے۔ اس پلیٹ فارم سے انہوں نے نوجوانوں کی تربیت، ووٹر رجسٹریشن، سیاسی سرگرمیوں میں نوجوانوں کی بھرپور شرکت، نسلی امتیاز کے خلاف تحریکوں اور اسٹریٹ گینگ کے تشدد کی روک تھام کے لئے کام کیا۔

وہ آج کل ٹیکساس ریاست کے شہر ہیوسٹن میں ہیں جہاں افریقی النسل مسلمان ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اسلامی تنظیموں میں بھی سنجیدہ سرگرمیوں میں بھرپور کردار اداکیا۔ مسلمانوں کے حقوق اور قانونی معاملات میں ان کی اعانت کے لئے مشہورتنظیم کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے بورڈ ممبر منتخب ہونے کے بعد وہ دو ہزار چار سے نو تک بورڈکے صدر بھی رہے اور پھر ڈیلس میں اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر دو سا ل تک کام کیا۔ ان سرگرمیوں کے علاوہ بھی وہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے ہر محاذپر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے ہیں۔

اس انٹرویو میں انہوں نے جارج فلوئد کی ہلاکت کے بعد امریکہ بھر میں جاری مظاہروں، افریقی نژاد امریکیوں کے حقوق، ان کے خلاف تعصب اور پولیس تشدد جیسے اہم موضوعات پر کھل کر گفتگو کی:

افریقی نژاد امریکی شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک امریکہ میں کو نئی بات نہیں ہے مگر صدر اوباما کے انتخاب کے بعد سے اب تک اس میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

تاریخی لحاظ سے امریکہ میں نسلی برتری کی علم بردار تنظیموں کے کے کے (سفید فام نسل پرست کو کلکس کلین) اور وائٹ سٹیزن کونسل کے علاوہ عبادت گاہوں، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں افریقی النسل لوگوں سے نفرت کا پرچار کیا جاتا ہے جو آج بھی موجودہے۔ ان رویوں کی بنیاد دراصل یہ خوف ہے کہ یہ کمیونٹی طاقت حاصل کرکے سفید فام اکثریت سے وہی سلوک کرے گی جواس نے افریقی غلاموں کے ساتھ کیاتھا۔ صدر اوباما کے آنے کے ساتھ ہی یہ خوف اور بھی بڑھ گیا اور سفید فام اکثریت اور پولیس جیسے دیگر ادروں نے کھلم کھلا نوجوان سیاہ فاموں کے خلاف تشدد کی ایک نئی لہر کا آغاز کیا۔

معروف سول رائٹس لیڈر اور سابق صدارتی امیدوار جیسی جیکسن (Jesse Jacson) کے مطابق جارج فلوئڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت”دن دہاڑے لنچنگ“ (Lynching) کے مترادف ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

لنچنگ کا مطلب ثبوت کے بغیر کسی فرد پر پر الزام لگاکر ماورائے عدالت ہلاک کرنا ہے۔ جارج فلوئڈ کے ساتھ بالکل اسی طرح کا سلوک کیا گیا۔ انہیں زمین پر گراکر قتل کرنا جب کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کررہے تھے پولیس کی جانب سے بغیر کسی جواز کے تشدد اور قتل عمد کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ میں تو اسے لنچنگ ہی کہوں گا۔

امریکہ میں یوں تو تمام اقلیتیں کسی نہ کسی صورت میں تعصب اور امتیاز کا شکار رہی ہیں مگر افریقی نژاد شہریوں کے خلاف یہ تعصب انتہائی پر تشدد اوربراہِ راست ہے۔ آپ امریکہ میں افریقی النسل اور دوسری اقلیتوں کے خلاف تعصب میں کس طرح تفریق کریں گے؟

دراصل امریکہ میں زیادہ تر سیاہ فام ان لوگو ں کا سلسلہ ہیں جنہیں افریقہ سے غلام بناکر لایا گیا تھا۔ تمام دوسری اقلیتیں (جیسے آئریش، چینی یا لاطینی امریکی) اپنی مرضی سے یہاں آئے لیکن سیاہ فام واحد لوگ ہیں جو غلامانہ نظام کا حصہ رہے ہیں۔ نئے تارکین میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اپنے سفید رنگ کی بنا پر امریکی سفید فام باشندوں سے آسانی سے گھل مل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے ایک انٹرویو میں بہت عرصہ پہلے بتایا تھاکہ کس طرح یورپ سے آنے والے تارکین ِوطن کو امریکہ کے وسطی اور مغربی علاقوں میں کاشت کاری کے لئے زمینیں دی گئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں ان سیاہ فام لوگوں کو زمینیں نہیں دی گئیں جنہوں نے ان پر غلاموں کی حیثیت سے مزدوری کی تھی۔

آپ ایک عرصے سے انسانی حقوق کی پاسداری اور تعصب کے خلاف سرگرم رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں سیاہ فام اقلیت کے خلاف تشدد اورامتیازی سلوک کس طرح ختم کیا جاسکتاہے؟

میرے نزدیک ان اقدامات کے ذریعے مسائل کے حل کی جانب قدم بڑھایا جاسکتاہے:

1۔ تمام سماجی اکائیوں کے مابین باہمی رابطے قائم کئے جائیں جن سے ایک دوسرے کی روایات، تاریخ اور ثقافت سے واقفیت اور ہم آہنگی کی فضا سازگار ہوسکے۔ اس طرح سماجی انصاف اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تمام گروپس کی مشترکہ کوششوں کا آغاز کیا جاسکے گا۔

2۔ اقلیتیں اپنے علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں، جلسوں اور انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔ اپنے من پسند نمائندوں سے جنہیں آپ نے ووٹ دیا ہے تعلق رکھیں اور انہیں تعاون کا یقین دلائیں۔ اس طرح انہیں بھی معلوم ہوگا کہ آپ کمیو نٹی کا حصہ ہیں اور مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔ مسائل جنم لیں تو ان کے دفتر کا دورہ کریں اور ان سے مل کر حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ یادرکھیں ’سیاست وہی ہے جو مقامی ہو۔‘

3۔ امیدواروں کوپرکھیں اور ان ہی لوگوں کو اپنا ووٹ دیں جو نہ صرف آپ کے مسائل کے حل میں سنجیدہ نظر آتے ہیں بلکہ ان کا کام اور ریکارڈ بھی اس کی گواہی دیتا ہے کہ وہ آپ کی کمیونٹی کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ سیاست دانوں کے ساتھ تصویریں بنوائیں بلکہ اپنے ووٹ اور کمیونٹی کو موثر تبدیلی کا ذریعہ بنائیں۔

4۔ کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دینے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور امن و امان قائم رکھنے میں پولیس سے مذاکرات اور بات چیت میں مدد کریں۔ اس سے پولیس اور کمیونٹی میں اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے اور پولیس کی جانب سے تشدد اور زیادتیوں پر قابو پا یا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیل فون کا کیمرہ تیار رکھیں، اپنے لئے ایک قابل وکیل مقرر کریں اور ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں جن سے زیادتی ہو رہی ہو خواہ وہ کسی بھی کمیونٹی کے ہوں۔

5۔ امن و امان قائم رکھنے والے اداروں اور منتخب نمائندوں سے مل کر ایسی پالیسیاں بنانے میں مدد کریں جن سے متعصب پولیس اہلکاروں کا مواخذہ ممکن ہو، انہیں ملازمتوں سے فارغ کیا جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھاجائے کہ انہیں کہیں اور پولیس افسر کے طورپرملازم نہ رکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس مقصد کے لئے سویلین ریو یو بورڈ تشکیل دئے جائیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔