خبریں/تبصرے

’وفاقی بجٹ: کسانوں کے 60 ارب کارخانہ دار لے اڑے‘: پاکستان کسان رابطہ کمیٹی

لاہور (پریس ریلیز/روزنامہ جدوجہد) پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے وفاقی بجٹ رد کرتے ہوئے اس میں کسانوں کے لئے مختص رقم کو انتہائی ناکافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثرہ چھوٹے کسانوں کو بجٹ میں مکمل نظر انداز کیا گیا ہے، ٹڈی دل سے کسانوں کی تباہ شدہ فصل بھی بھلا دی گئی ہے اور کسانوں کے ازالے کی کوئی بات ہی نہ کی گئی۔

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کا ایک اہم آن لائن اجلاس گذشتہ روزمنعقد ہوا جس میں کمیٹی سے منسلک 28 کسان تنظیموں کے نمائندوں نے چاروں صوبوں سے شرکت کی۔

ایک مشترکہ اعلامیہ میں کسان رہنماؤں کی جانب سے وفاقی بجٹ کو یہ کہہ کر مکمل طور پر رد کردیا گیا کہ یہ سراسر آئی ایم ایف جیسے عالمی سامراجی اداروں کا ایجنڈا ہے اور اس بجٹ میں ایک کسان اور عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے غیر معمولی اور مشکل حالات میں ایک زرعی ملک کی حکومت کی جانب سے زراعت کیلئے 10 ارب جیسی معمولی رقم مختص کرنا ہماری معیشت اور کسانوں کے ساتھ ایک بھونڈے مذاق کے مترادف ہے۔

اجلاس میں شریک کسان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے باعث کاشتکاری اور دیہی معیشت شدید انداز میں متاثر ہوئی ہے، بالخصوص سبزی، پھلوں اور پھول کے کاشتکاروں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ پھولوں کا کام تو مکمل طور پر ہی رک گیا تھا جبکہ سبزیوں کے کم نرخ کے باعث کئی جگہوں پر کسانوں نے کھڑی فصلیں تلف کیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ بیشتر دیہی اضلاع میں دودھ کی قیمتیں نصف ہوئیں اور کسان اپنے اخراجات تک بھی پورے نہ کر سکے۔ رہنماوں کا کہنا تھا کہ گندم کی فصل اس بار ماحولیاتی تبدیلی اور بے موسمی بارشوں کے باعث شدید نقصان کا شکار ہوئی بالخصوص گوجرانوالہ ڈویژن کے بیشتر علاقوں میں فصل کی کاشت ہی نہ ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ کسانوں سے گندم 1400 روپے فی من اٹھائی گئی جبکہ اب مارکیٹ میں 1800 روپے فی من نرخ ہیں اور بہت سے کسانوں سے ایک خاص مقدار گندم زبردستی اٹھائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ کھاد پر جو سبسڈی دی گئی وہ کسانوں کیلئے بے اثر ثابت ہوئی ہے اور چینی پر دی گئی سبسڈی ہی کی طرح صنعتکاروں کے منافعوں کے علاوہ کوئی مقصد پورا نہیں کرپائی۔

کسان رہنماؤں نے کہا کہ زراعت کو ناقص بیج کی پیدوار اور فروخت کے باعث ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے کہ مکئی اور تل کی فصلیں غیر معیاری بیج کے باعث سرے سے اُگ ہی نہ سکیں جبکہ بیج کے نرخ بہت زیادہ ہونے کا گلہ بھی کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی سامنے آیا کہ جن علاقوں میں زیرِ زمین پانی موجود نہیں وہاں کئی کسانوں کو نہری پانی کی شدید کمی اور رسائی کی وجہ سے فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

تمام صوبوں اور اضلاع کے کسان رہنماؤں نے ماحولیاتی تبدیلی کے باعث زراعت پر مرتب ہونے ہونے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا اور انکے تدارک پر بالخصوص زور دیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ کرونا وائرس اور ٹڈی دل نے چھوٹے کسانوں کو بے پناہ مالی و جانی نقصان پہنچایا ہے۔ پھولوں، ڈیری، پولٹری، فصلوں اور پھلوں کے باغات کے کاشتکاروں اور چھوٹے تاجروں کو جو مالی نقصانات ہوئے ان کا اندازہ کرنے کے لئے حکومت نے کوئی سروے نہیں کیا، محکمہ زراعت بھی خاموش رہا جبکہ بجٹ میں اس ضمن میں کوئی رقم مختص ہی نہ کی گئی ہے۔

ماہر زراعت میاں آصف شریف نے کہا کہ کرونا وائرس سے متاثرہ کسانوں کے لئے ابتدائی طور پر مختص 60 ارب روپے کی رقم کھاد اور زہریلی دوائیوں کے کارخانے دار اور بڑے فارموں کے مالک سبسڈی کے نام پر لے اڑے اور اب وفاقی بجٹ میں بھی 10 ارب کی رقم انہی طبقات کے پاس جائے گی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ چھوٹے کسانوں کی تنظیمیں اس سارے عمل میں فراموش کر دی گئی ہیں۔

کوئٹہ سے شریک عزیز بلوچ نے کہا بلوچستان حکومت کے مطابق بلوچستان میں 40 فیصد لوگ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں، ٹڈی دل حملے کی وجہ سے بلو چستان کے 31 اضلاع متاثر ہوئے ہیں جسکی وجہ سے بلوچستان میں 9269 ہیکٹر پر کھڑی فصلوں کو نقصان ہوا، جس سے 1492 ملین کے نقصان اندیشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی کوئی مناسب حکمت عملی نظر نہیں آتی اور کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ کیا گیا۔ مردان سے شریک کسان رہنما گلزار خان نے کہاکہ خیبر پختون خوا میں کاشتکاروں کا کوئی پرسان حال نہیں اور حکومتی سکیمیں کامیاب نظر نہیں آتیں۔

مورو سندھ سے شریک کسان رہنما یونس راھو نے کہا کہ سندھ میں کرونا اور ٹڈی دل کے حملوں سے بہت نقصان ہوا ہے، ہاریوں اور آبادکاروں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

چشتیاں سے شریک کسان رہنما طارق محمود نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ایک دو جانور رکھنے والے گوالے تو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں، دور دراز دیہاتوں سے دودھ اب بھی 30-35 روپے کلو اٹھایا جا رہا ہے اور دودھ بیچنے والی ملٹی نیشنلز دونوں ہاتھوں سے کسانوں کا استحصال کر رہی ہیں۔

کسان رہنما رفعت مقصود نے کہا کہ کسان مزدور عورتوں کو اس کرونا وائرس کا بے حد نقصان ہوا ہے ان کی مزدوری کم کر دی گئی ہے اوران کا کوئی پرسان حال نہیں۔

قصور سے کسان رہنما محمد نصیر نے کہا ہم چھوٹے زمینداروں نے بعض سبزیوں کو کھیتوں سے اٹھایا ہی نہیں، ان کے منڈی پہنچانے پر جو خرچہ آ رہا تھا وہ انکے بیچنے سے زیادہ تھا۔

اجلاس سے محمد رشید ڈوگر، احمد فراز، علی بہرام، صائمہ ضیا، محسن ابدالی، ارشد ہوتی، ڈیوڈ مسیح، حاجی محمد ریاض، محمد فاروق خان، عرفان مفتی، ہاشم بن راشد، حسن طوری، میاں ارشد اقبال، محسن رائے، ناصرہ حبیب، سید صدیق اللہ، محمد مزمل احمد، ناصر اقبال اور دیگر نے خطاب کیا۔

اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت چھوٹے کسانوں کے نمائندوں پر مشتمل وفد سے ملاقات کر کے بجٹ ترجیحات تبدیل کرے اور چھوٹے کسانوں کے نقصانات کے ازالے کے طریقہ کار پر غور کرے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts