فاروق طارق
انڈونیشیا میں پاکستانی سفیر میجر جنرل ریٹائرڈ مصطفیٰ انور حسین کے خلاف نیب میں ایک ریفرنس دائر کیا ہے کہ انہوں نے جکارتہ میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت انتہائی کم قیمت پر فروخت کی، جس سے حکومت کو 13 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
ان سابقہ میجر جنرل صاحب سے میرا بھی واسطہ پڑ چکا ہے۔
جون 2001ء میں جکارتہ میں سامراجی گلوبلائزیشن مخالف ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے میں بھی زندگی میں پہلی دفعہ انڈونیشیا پہنچا۔ کانفرنس کے دوسرے روز مجھ سمیت کانفرنس کے 32 شرکا کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
یہ انڈونیشیا میں اعلیٰ سطح پر چلنے والی اندرونی کشمکش کی وجہ سے ہوا۔ ہمیں انڈونیشین صدر عبرالرحمن وحید کی حمائیت کرنے والی ایک سیاسی جماعت نے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی جبکہ اس وقت کی نائب صدر سوکارونو پوتری اس صدر کو ہٹانا چاہتی تھیں۔
ہمیں ایک پولیس سٹیشن لے جایا گیا۔ سب کو ایک بڑے کمرے میں بند کر دیاگیا۔ یہ اس روز ایک عالمی خبر تھی۔ 14 ملکوں کے مندوبین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اب ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں ویزا قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ تو ایک بہانہ تھا۔ انڈونیشیا کے تمام بڑے اخبارات کی شہ سرخی ہماری گرفتاری بارے تھی۔
اگلے روز ہمیں بس کے ذ ریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ کرنے کے موقع پر میں نے بس سے باھر منہ نکالا تو میڈیا ہی میڈیا ہمارے ارد گرد تھا۔ بی بی سی ٹیلی وژن چلتے چلتے میرا ایک کمنٹ ریکارڈ کرنے میں کامیاب ہوا جو کہ عالمی سطح پر مختلف چینلز نے چلایا۔
نئی جگہ پر اب ان تمام ملکوں کے سفیر اور دیگر اعلیٰ حکام ہمارے پاس پہنچنے لگے اور اپنے شہریوں کی باعزت رہائی کی کوششیں کرنے لگے۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ پاکستانی سفیر اب میری گرفتاری پر کچھ نہ کچھ تو کرے گا تاکہ میری بھی جان چھوٹ جائے۔
میں ایک جانب زمین پر بیٹھا تھا کہ فرانسیسی سفیر میرے پاس آیا۔ وہ اپنے گرفتار شہری پیرے روزے سے یکجہتی کے لئے وہاں آیا ہوا تھا۔ یہ وہی پیرے روزے ہیں جو22 اگست کو ہمارے ساتھ ڈاکٹر لال خان مرحوم کے ویبینار میں شریک تھے۔ فرانسیسی سفیر مجھ سے مخاطب ہوا”تو آپ پاکستانی ہیں، میں نے آپ کے پاکستانی سفیر میجر جنرل مصطفی انور حسین کو جو میرا دوست ہے کو بھی یہاں آنے اور آپ کی مدد کرنے کو کہا تھا مگر انہوں نے آنے سے انکار کردیا اور کہا:بہتر ہے فاروق یہاں جیل میں ہی رہے اس نے پاکستان میں جنرل مشرف حکومت کو کافی تنگ کیا ہوا ہے“۔
انڈونیشیا آنے سے قبل، تین ماہ کے دوران میری دو دفعہ گرفتاری ہو چکی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں ے آر ڈی کی جمہوری مہم کا سرگرم کاکرکن تھا۔ گرفتاری ایک دفعہ تہمینہ دولتانہ کے گھر سے اور دوسری دفعہ لاہور ائیرپورٹ سے ہوئی جہاں ہم کراچی یوم مئی کے جلسے میں جانے کے لئے پہنچے تھے۔
ہمیں تین روز بند رکھا گیا۔ تمام دیگر گرفتار شدہ 31 افراد کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ صرف مجھے سزا دی گئی اور انڈونیشیا سے واپس بھیج دیا گیا۔ مجھے انڈونیشیا فوری چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔دیگر تمام 31 گورے کامریڈ بھی اسی جرم کے مرتکب تھے جو میرا تھا کہ ہم وزٹ ویزے پر آئے تھے مگر وہ تمام بے گناہ…
میں براستہ سنگاپور لاہور ائیرپورٹ پہنچا اس وقت پاکستان اخبارات میں یہ خبر شائع ہو چکی تھی۔شعیب بھٹی، جو لیبر پارٹی پاکستان کے اس وقت چئیرمین تھے، درجنوں ساتھیوں سمیت پھولوں کے ھار لئے میرے استقبال کے لئے ائیرپورٹ پر تھے تا کہ یہاں بھی گرفتاری نہ ہو جائے۔
اندونیشیا میں گرفتاری کے دس سال بعدجکارتہ کی اسی ایمبیسی میں میرا ایک دوست اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہمسایہ میاں ثنااللہ بطور سفیر متیعن تھا۔ سفارت خانے کے باہر ہماری اپیل پر ہمارے انڈونیشین دوست بابا جان کی رہائی کے لئے مظاہرہ کرنے آئے۔
ایمبیسیڈر میاں ثناللہ جسے معلوم تھا کہ بابا جان لیبر پارٹی کا رہنما ہے، نے تمام مظاہرین کو سفارت خانے کے اندر آنے کی دعوت دی، ان کی خاطر تواضع چائے وغیرہ سے کی تو یہ انڈونیشین حیران پریشان ہو گئے کہ ہم انکے خلاف مظاہرہ کرنے آئے ہیں اور یہ چائے پلا رہے ہیں۔
جب بعد میں مجھ سے انڈونیشیا والے کامریڈز نے خوشگوار حیرانی کا اظہار کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ میاں ثناللہ نے کیا ہے۔
میں نے انہیں بتایا کہ سفیر صاحب ہمارے یونیورسٹی فیلو تھے اور دوست ہیں۔ اُس وقت بائیں بازو کی سیاست میں تھے۔ ہم ایک ہی ہاسٹل میں رھتے تھے۔ میاں ثنااللہ موجودہ گورنر چوھدری سرور کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں۔ عرصہ بعد ان سے فیض امن میلہ میں خوشگوار ملاقات ہوئی، چند سال قبل۔
ایک سویلین سفیر نے جس طرح پاکستان کی عزت بڑھائی اور ایک فوجی جرنیل نے مصیبت میں گھرے پاکستانی کی جو عزت فرمائی اس سے آپ خود اندازہ کر لیں کہ ہم کیوں کہتے ہیں: سویلین حکمرانی ہی بہتر ہے۔