فاروق سلہریا
16 اکتوبر کی شام گوجرانولہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بھرپور عوامی جلسے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مزاحمتی تقریر نے خود حزب اختلاف کی قیادت کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہو گا۔
تا دم تحریر کراچی میں پی ڈی ایم کا جلسہ شروع ہونے والا ہے۔ جلسہ چونکہ سندھ میں ہے جہاں پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے اس لئے نہ صرف جلسے پر پیپلز پارٹی کا رنگ گہرا ہو گا…جیسا کہ گوجرانوالہ میں نون لیگ کا تھا…بلکہ جلسے میں لوگ بھر پور شرکت کریں گے۔ اس شہر میں تو عام حالات میں بھی بڑی پارٹیاں لوگوں کو موبلائز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب شہری سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہیں، سندھ کے جزیروں پر وفاق کے قبضے کے خلاف بھی غصہ پایا جا رہا ہے…کراچی کا جلسہ یقینا ایک بڑا جلسہ ہو گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام پی ڈی ایم کی قیادت کی بار بار موقع پرستیوں کے باوجود جلسوں میں آ رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کی مثال ہی لے لیجئے۔ عین جلسے والے دن ایم این اے محسن داوڑ کو جلسے میں آنے سے منع کر دیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اس دن نواز شریف کی تقریر نے پی ڈی ایم قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ساز باز کا تاثر ختم کر دیا لیکن محسن داوڑ کو ڈِس انوائٹ (Disinvite) کرنا موقع پرستی کی انتہا تھی۔
جلسوں کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے، آل پارٹیز کانفرس کے فوری بعد، جی ایچ کیو میں خفیہ ملاقاتیں بھی پی ڈی ایم کی قیادت پر سوالیہ نشان اٹھا چکی تھیں۔ اس پر میڈیا میں بھرپور مہم بھی چلی۔ ایک سوال جو بار بار ناقدین کی جانب سے اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں نے مل کر موجودہ فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرائی۔ یہ سوال سیاسی کارکن بھی اٹھا رہے ہیں، بعض صحافی بھی اور دلچسپ بات ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی بھی اٹھا رہے ہیں۔
چند روز پہلے ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں نواز شریف سے جب فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع بارے ان کی جماعت کے کردار بارے پوچھا گیا تو وہ جواب سراسر گول کر گئے۔ مدت ملازمت پر ہی کیا موقوف ہے۔ ان دو جماعتوں کا ماضی قریب بھی گواہ ہے کہ دونوں نے اقتدار میں آنے یا اقتدار بچانے کے لئے بار بار موقع پرستیاں کیں۔ یہ موقع پرستیاں ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی یاد ہیں۔ اس کے با وجود اگر لوگ نکل آئے ہیں تو اس کی وجہ صاف ظاہر ہے: اس حکومت میں لوگوں کو کوئی امید باقی نہیں…لیکن عوام صرف مایوس ہو کر سڑک پر نہیں نکلتے۔
لوگوں کا سڑک پر بار بار نکلنا تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ عوام سڑکوں پر عموماً تب آتے ہیں جب مایوسی کے علاوہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہو اور مایوسی کے ساتھ ساتھ غصہ اور نفرت بھی شامل ہو چکے ہوں۔
روزنامہ جدوجہد میں ہم گذشتہ ایک سال سے اس امکان کی جانب اشارہ کر رہے تھے کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں گے۔ کرونا بحران نے معاملات کو الجھا دیا۔ تحریک موخر ضرور ہو گئی لیکن کرونا بحران نے غصے اور مایوسی میں بھی اضافہ کیا۔ کرونا کے بعد عمران خان کی حکومت، اس سال مارچ کی نسبت زیادہ غیر مقبول ہو چکی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا حزب اختلاف ڈٹی رہے گی؟
اس سوال کا جواب مستقبل کے منظر نامے پر منحصر ہے۔ محض جلسوں سے حکومتیں نہیں گرتیں۔ کمزور ضرور ہوتی ہیں۔ حکومتیں تحریکوں سے گرتی ہیں۔ اگر تو پی ڈی ایم کے جلسے کسی خود رو تحریک کو جنم دیتے ہیں جس کے لئے معروضی حالات زبردست طریقے سے موجود ہیں جیسا کہ اسلام آباد میں مزدور دھرنے نے بھی ثابت کیا، تو پی ڈی ایم کی قیادت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ کچھ حصے تحریک کے ساتھ ہوں گے، کچھ رات کے اندھیرے میں راولپنڈی صدر کے آس پاس گھومتے ہوئے ملیں گے۔ جو حصہ تحریک کے ساتھ رہے گا، وہ بھی بہتر سودے بازی کی تلاش میں ہو گا۔ ریاست بالائے ریاست خود بھی یہی چاہے گی کہ تحریک کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہ لوگ براجمان ہوں جو نظام کو نہیں بدلنا چاہتے۔
دوسری جانب یہ امکان بھی موجود ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت جلد سمجھوتے بازی کی طرف چلی جائے اور تحریک وقتی طور پر پنپ ہی نہ سکے۔ گوجرانوالہ میں جو لہجہ اپنایا گیا ہے، اس کے بعد شائد ایسا آسان نہ ہو۔
ایک تیسرا امکان ہے۔ اس امکان کا اظہار اسلام آباد میں جاری لیڈی ہیلتھ ورکرز کا بے مثال دھرنا، علی آباد میں بابا جان اور ان کے ساتھیوں کے لئے ہفتہ بھر جاری رہنے والا تاریخی احتجاجی دھرنا، وزیر آباد میں خواتین کا دھرنا…یہ اس امکان کی تازہ مثالیں ہیں۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کا دھرنا گو اسلام آباد میں ہو رہا ہے مگر اس میں شریک خواتین کوئٹہ سے لے کر پشاور تک سے آئی ہیں۔ علی آباد اور وزیرستان کو پاکستان کا مضافات کہا اور سمجھا جاتا ہے مگر مضافات میں ہونے والی یہ جدوجہد کی مثالیں پورے پاکستان کی توجہ کا مرکز بنیں۔
دس سال پہلے تیونس میں بھی انقلاب سیدی بو سید نامی چھوٹے سے قصبے میں شروع ہوا تھا اور چند دن بعد دارلحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ علی آباد، وزیرستان اور کوئٹہ بھی اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ ایک مثال ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔