دنیا

کیا امریکہ ایران پرحملہ کرنے کی سازش میں مصروف ہے…؟

حارث قدیر

گزشتہ جمعرات کو امریکی قومی سلامتی کابینہ اجلاس میں ایران کے مرکزی جوہری مرکز کے خلاف کاروائی کے مختلف آپشن زیر بحث لائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ معروف امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں سولہ نومبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دیئے جانے کی مہم کے سلسلہ میں طلب کئے گئے اس اجلاس میں امریکی نائب صدر مائیک پینس، سیکرٹری برائے خارجہ امور مائیک پومپیو، قائمقام سیکرٹری کرسٹوفر ملر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی موجود تھے۔

اس بحث کا آغاز انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی گزشتہ ہفتے شائع ہونیوالی رپورٹ کے بعد ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران کا کم از کم افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 5386 پاؤنڈ تک جا پہنچا ہے، جو دنیا کی بڑی طاقتوں اور ایران کے مابین ہونے والے جوہری معاہدے میں طے شدہ حد سے بارہ گناہ زیادہ ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے 2018ء میں عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین طے ہونے والے معاہدے سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ایران پر یکطرفہ پابندیوں کا نفاذ کر دیا تھا جسکے ذریعے ایرانی معیشت کا گلا گھونٹنے، شہریوں کو فاقوں پر مجبور کرنے اور جنگی اشتعال انگیزی کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔ رواں سال جنوری میں بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایرانی رہنما قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کیا گیا، اس واقعہ نے دونوں ملکوں کو بظاہر جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ (ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس) پر شائع ہونیوالی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کے یورینیم ذخیرے کا حجم 2015ء میں ہونیوالے معاہدے کے وقت سے کہیں زیادہ کم ہے اور اس کی کوئی تذویراتی اہمیت نہیں ہے، نہ ہی یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ ایران نے یورپ کی طرف سے امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کے جواب میں یورینیم کے ذخیرے میں اضافہ کیا اور معاہدے کی دیگر حدوں سے تجاوز کیا۔ ایران نے 90 فیصد سے زیادہ سطح پر یورینیم افزودگی کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جس سے فیژن ایبل مواد تیار کیا جا سکے، نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ ایران کا ایسا کرنیکا کوئی ارادہ ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مضمون میں امریکی اور اسرائیلی حکومتوں کے پروپیگنڈہ کو دہرایا گیا ہے کہ آئندہ موسم بہار تک ایران کسی بم کی تیاری کے قریب ہو سکتا ہے، مذکورہ مضمون کے مصنفین ایرک اشمتھ اور ڈیوڈ سنجر ہی 2002-03ء میں عراق پر امریکی جارحیت کی راہ ہموار کرنے کیلئے عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق ایک جعلی کہانی پھیلانے والی نیو یارک ٹائمز کی مہم کا بھی حصہ تھے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق کسی بھی امریکی حملے کا نشانہ ایرانی دارلحکومت تہران کے جنوب میں واقع ایران کا سب سے بڑے یورینیم افزودگی کا مرکز نطنزہو گا، یہ حملہ میزائل بھی ہو سکتا ہے اور سائبر حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حملے کی منصوبہ بندی تیزی سے جاری ہے اور اس پر عملدرآمد کیلئے حتمی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

پینٹاگون نے پیر کے روز ایف 16 لڑاکا طیاروں کے دستے کی جرمن ایئر بیس سے ابوظہبی کے الظفرا ایئر بیس پر دوبارہ تعیناتی کی اطلاع دی ہے۔ ایئرفورس کے ایک کمانڈر نے میڈیا کو بتایا کہ یہ خطے میں سلامتی اور استحکام سے متعلق اٹھایا گیا قدم ہے۔ واضح رہے کہ یہ طیارے روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ دریں اثنا امریکی بحریہ کے سٹرائیک گروپ نے خلیج فارس میں کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور اس خطے میں امریکہ کی تقریباً 35000 فوج تعینات ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ اسرائیل کے دوران بھی ایران کے خلاف جنگ ہی سب سے اہم معاملہ ہو گا جو زیر بحث لایا جائے گا۔ اسرائیلی میڈیا اس بارے میں قیاس آرائیاں کر رہا ہے کہ ٹرمپ اقتدار سے الگ ہونے سے پہلے ایران پر حملہ کریں گے یا واشنگٹن اسرائیلی وزیراعظم کو ایسا کرنے میں مدد کرے گا۔

ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کا نتیجہ صرف ہزاروں افراد کی جان لینے تک نہیں رکے گا، بلکہ یورینیم، ہیکسا فلورائیڈ گیسوں اور تابکار مادے کے اخراج سے لاکھوں انسان موت اور بیماریوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے مطابق ایران کے خلاف اس جنگی اشتعال انگیزی کے پیچھے امریکی سیاسی بحران اصل وجہ قرار دی جا رہی ہے، جو دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں شکست کے بعد اقتدار پر براجمان رہنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے پینٹاگون کے اعلیٰ عہدوں پر جنونی طور پر ایران مخالف فسطائی سوچ کے حامل افراد کو تعینات کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران پر حملہ اور ایران کی جوابی کاروائی میں امریکی فوجیوں کی اموات ٹرمپ کیلئے مارشل لا لگانے اوروائٹ ہاؤس نہ چھوڑنے کا بہانہ ہو سکتے ہیں۔ نئے صدر کے حلف میں ابھی 62 دن باقی ہیں اور اس اشتعال انگیزی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ دوسری جانب جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس نے ایران کے خلاف جنگ کے خطرے کو نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے افغانستان اور عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو بھی امریکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔

ایران کے خلاف نئی عالمی جنگ کا خطرہ ٹرمپ حکومت کے بحران کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کا ماخذ امریکی سامراج کا تاریخی بحران ہے۔ ایران کے خلاف جارحیت کی بنیادی وجہ جیو اسٹریٹیجک مفادات، خلیج فارس اور وسیع توانائی کے وسائل پر تسلط کی کوشش کے علاوہ چین کے خلاف ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لئے اگر بائیڈن بیس جنوری کو حلف لینے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو جنگ کا یہ خطرہ بڑھتا ہی جائے گا۔ ڈیموکریٹس نے روس اور چین سے متعلق صدر ٹرمپ کی نرم پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے عزائم واضح کر رکھے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کا بڑا مسئلہ صدر ٹرمپ کی سازشوں کو روکنا نہیں بلکہ عوامی رد عمل کے ذریعے وال اسٹریٹ اور امریکی سامراج کو لاحق خطرات کو روکنا ہے۔ جنگوں کے خلاف اور جمہوری حقوق کے دفاع کیلئے صرف مزدور طبقہ ہی متحرک کردار ادا کر سکتا ہے، ڈیموکریٹس اور ٹرمپ دونوں سرمایہ دارانہ نظام کا ہی دفاع کریں گے۔

امریکی انتخابات کے بعد پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور اگر امریکی محنت کش آزادانہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں تو انہیں پوری دنیا کے محنت کشوں کی حمایت حاصل ہو گی۔ امریکہ اور دنیا بھر کے محنت کشوں کے مشترکہ مفادات مالیاتی اور کارپوریٹ گرفت کو توڑنے اور سوشلزم کی بنیاد پر عالمی سطح پر پیدواری نظام اور اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں مضمر ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔