خبریں/تبصرے

محسن فخری زادہ کی ہلاکت: کیا ایران اسرائیل سے بدلہ لے گا؟

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایران کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کی ہلاکت نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ محسن فخری زادہ کو ایرانی نیوکلیئر پروگرام کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا تھا، جنہیں گزشتہ جمعہ کے روز ابسرد شہر میں مصطفی خمینی بلیوارڈ پر مسلح حملے میں ہلاک کیا گیا۔

ایرانی خبر رساں اداروں نے اسے ایک دہشت گردی کی کاروائی قرار دیا اور کہا کہ دہشت گردوں نے پہلے ایک بم دھماکہ کیا اور اس کے بعد گاڑی پرفائرنگ کی، جس کی زد میں آ کر محسن فخری زادہ شدید زخمی ہوئے لیکن جانبر نہ ہو سکے۔ بعد ازاں ایرانی سکیورٹی اداروں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں الیکٹرانک ہتھیاروں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جنہیں سٹیلائٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔

ایرانی صدر حسن روحانی، سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس قاتلانہ حملے کا الزام اسرائیل پرعائد کیا ہے، امریکہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور کسی کے ملوث ہونے سے متعلق معلومات نہ ہونے کا اظہار کیا ہے، جبکہ اسرائیل نے تاحال ایرانی الزام پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

تاہم ایران نے جس طرح رواں سال جنوری میں امریکی ڈرون حملے میں ایرانی فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا فوری بدلہ لینے کیلئے اقدامات کئے تھے، اس کے برعکس بدلے کیلئے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کی جانیوالی اشتعال انگیزی کے رد عمل میں وہ کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہتے جس سے براہ راست جنگ کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑے۔

اس واقعے کے پیچھے مختلف محرکات ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے خلاف سخت گیر پالیسی اور نیوکلیئر معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اور ایران پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے اسرائیل اور دیگر امریکی اتحادی عرب بادشاہتوں کے مشرق وسطیٰ میں تذویراتی مفادات کو تحفظ حاصل تھا۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اپنی الیکشن مہم کے دوران متعدد مرتبہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں دوبارہ سے شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ٹرمپ انتظامیہ کی موجودگی میں ہی ایران کے خلاف کسی بھی اشتعال انگیزی کو ہوا دے کر جو بائیڈن کیلئے ایران کے ساتھ امن کی پالیسی کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے کیلئے اس طرح کا اقدام کر سکتا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ماضی میں متعدد مرتبہ محسن فخری زادہ کا نام لیکر جوہری پروگرام میں انکے کردار کا ذکر کر چکے ہیں جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل شائدمحسن فخری زادہ کے خلاف اس طرح کی کارروائی سے متعلق لمبے عرصے سے تیاری میں مصروف تھا۔

ایک دوسری وجہ اسرائیل اور عرب بادشاہتوں کے درمیان ماضی کی خفیہ دوستی کے اعلانیہ سفارتی تعلقات میں تبدیل ہونے کے راستے میں ایران سمیت کچھ دیگر ممالک کی جانب سے رکاوٹیں پیدا کرنے کے امکان کو کم کرنے کیلئے ایران کو دھمکانے اور عرب بادشاہتوں کیلئے اسرائیلی دوستی کے پیغام کو واضح کرنا بھی ہو سکتی ہے۔

محسن فخری زادہ پر حملے کے تین روز بعدپیر کو ایران نواز سمجھے جانے والے حوثی باغیوں نے سعودی شہر جدہ میں آرامکو کی ایک تنصیب پر حملہ کیا ہے، جسے ایرانی میڈیا کی جانب سے فخریہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اسے واضح طو رپر ایرانی رد عمل تو نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن مشرق وسطیٰ میں مختلف ریاستوں کے درمیان سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے اقدامات اور کشیدگی کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق چند روز قبل امریکی صدر کی زیر صدارت اجلاس میں بھی ایران کے جوہری مرکز پر حملہ کرنے کے آپشن پر غور کیا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ بھی جاتے جاتے ایران کے خلاف اشتعال انگیزی کی کوشش کر سکتی ہے۔ بظاہر تو امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے لیکن مذکورہ حملے میں ٹرمپ انتظامیہ کی سرپرستی کو خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری جانب ایران نے بظاہر تواس حملے کا وقت پر بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے، فوری رد عمل دینے اور اشتعال انگیزی سے گریز برتا ہے لیکن ایران کی ملا اشرافیہ کے پاس اس حادثے سے آسانی سے بچ نکلنے کے امکانات بہت محدود ہیں۔ ایرانی محنت کشوں کا پیٹ کاٹ کر جوسامراج مخالف جنگ لڑنے کا دعویٰ ملا اشرافیہ کی جانب سے کیا جاتا ہے اس پر ایرانی جوہری پروگرام کے سب سے اہم سائنسدان کی اس طرح کی ہلاکت نے متعدد سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ جوابی حملہ نہ کرنے کی صورت میں بھی اپنی حیثیت اور اقتدار کو جواز بخشنے کی راہ میں مشکلات حائل ہو سکتی ہیں۔ امن کو موقع دینے کے راستے کی حقیقت بھی ایرانی حکمرانوں کو اب معلوم پڑ چکی ہے۔ ماضی میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد ایران پر پابندیاں نرم ہونے کے بعد بھی عام انسانوں کی زندگیوں اور معیشت میں کوئی بڑی بہتری لانے میں حکمران کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔ پابندیوں اور سامراجی مخالفت کے نام پر ایک سکیورٹی سٹیٹ اور آمرانہ پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے جس اقتدار کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس اقتدار میں گزشتہ لمبے عرصے سے چلنے والی عوامی تحریکوں کی وجہ سے اب دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکمران ملا اشرافیہ اس حملے کو بہانہ بنا کر داخلی سکیورٹی کو سخت کرتے ہوئے حکمرانی کو چیلنج کرنے والے سیاسی اور سماجی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔ سائنسدان کی ہلاکت کی تحقیقات کا بہانہ بناتے ہوئے داخلی چیلنجوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

ایران کی طرف سے اس واقعے کا بدلہ اسرائیل سے جس بھی نوعیت کا لیا جائے اس سے نہ ہی اس خطے میں امن آئے گا اور نہ ہی ایران کے حالات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب یا کسی بھی سامراجی اتحادی ملک کی طرف سے ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے یا اشتعال انگیزی کو ہوا دینے سے اس خطے کے انسانوں کے مقدر بدل سکتے ہیں۔ درحقیقت سامراجی ریاستوں اور مقامی حکمرانوں کا ہر اقدام مشرق وسطیٰ میں قائم بادشاہتوں کو قائم رکھتے ہوئے تذویراتی و مالیاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے اور سرمایہ دارانہ حاکمیت کو جاری و ساری رکھنے کیلئے ہی اٹھایا جاتا ہے۔ مسئلہ فلسطین سمیت اس خطے میں موجود دیگر تمام تر مسائل کا حل پھر اس خطے کے محنت کشوں کی اس نظام کے خلاف منظم جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کسی ایک ملک میں تحریک کی کامیابی پورے مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کے گرنے سمیت ان مصنوعی سرحدوں کے خاتمے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts