عدنان فاروق
تا دم ِتحریر سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے کیفے سول پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ وہ لوگ جو میرا کی انگلش کا مذاق اڑاتے نہیں تھکتے، وہ بھی کیفے ذوق کی مالکان خواتین کی مذمت کر رہے ہیں۔
کچھ پوسٹ کلونیل انقلابی اس بات پر ماتم کر رہے ہیں کہ ہم ابھی تک کولنیل مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں آئے۔ براؤن صاحبوں اور ان کی براون بیگمات کی مذمت کرنے والے خود انگریزی میں ٹویٹ کر رہے ہیں۔ کچھ تو ان میں سے ایسے بھی ہیں جو پیرس اور لندن یا نیو یارک میں بیٹھ کر ٹویٹ کر رہے ہیں۔
منافقت پاکستانی بورژوازی اور درمیانے طبقے کی گھٹی میں پڑی ہے۔ اس سارے سکینڈل کے حوالے سے دو گزارشات ہیں۔
اول: ایک بات جس کی طرف، کم از کم تا دم تحریر، کسی نے دھیان نہیں دیا وہ ہے جینڈر اور طبقے کا سوال۔ اس ویڈیو میں دو سرمایہ دار خواتین ایک مرد مزدور کا تمسخر ارا رہی ہیں۔ لبرل فیمن اسٹ جو ہر بات کو جینڈر تک محدود کر دیتی ہیں، ان سے پوچھنا تھا کہ اس ویڈیو کے طبقاتی پہلو بارے کیا خیال ہے؟
دوم: ان خواتین نے اپنے روئیے پر معافی مانگنے کی بجائے، اپنے اس عمل کا دفاع کیا ہے۔ ان کا عذر گناہ، بد تر از گناہ ہے۔ فرما رہی ہیں کہ ”وہ اپنے ملازم کے ساتھ مذاق کر رہی تھیں، وہ اپنے ملازموں کو خاندان کا فرد سمجھتی ہیں اور یہ کہ لوگ دس سال سے ان کے پاس کام کر رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ملازمیں کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتی ہیں“۔
ان کی اس بات کا ثبوت تو تب ہی ملے گا جس دن ان کا کوئی ملازم بھی، کام سے بور ہو کر، کوئی ایسی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرے گا جس میں وہ بھی ان بیگمات کا مذاق اڑا رہا ہو۔ تب تک تو یہ عذر ِگناہ قبول نہیں۔ ان خواتین سرمایہ داروں کی حرکت کو تب تک ورک پلیس ہراس منٹ ہی کہا جائے گا۔