علی مدیح ہاشمی
کرے نہ جگ میں الاﺅتو شعر کس مصرف
کرے نہ شہرمیں جل تھل تو چشم نم کیا ہے
(فیض احمد فیض)
پاکستان کے غیر سرکاری شاعر فیض احمد فیض 13 فروری 1911ءمیں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال اور فیض کا آبائی شہر ایک ہی ہے۔ 1984ءمیں 73 سال کی عمر میں فیض کا انتقال لاہور میں ہوا، جسے زندگی کے آخری برسوں کے دوران وہ اپنا شہر کہنے لگے تھے۔
فیض نے اگرچہ اپنی زندگی میں ہی پاکستان اور پوری دنیا میں ایک لیجنڈ کی حیثیت حاصل کر لی تھی تاہم ان کے والد بھی اسی طرح کے انسان تھے گو ان کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ انہوں نے فیض سے بھی زیادہ ولولہ انگیز زندگی گزاری۔ سلطان محمد خان سیالکوٹ میں ایک بے زمین کسان کا غریب چرواہا بیٹا تھا۔ ایک مقامی استاد نے ان میں قدرتی ذہانت کو بھانپتے ہوئے انہیں اپنے سکول میں داخل کرا دیا۔ تعلیم کی جستجو میں وہ سیالکوٹ سے لاہور بھاگ آئے اور غریب بے گھر طلبہ کے لئے قائم ایک مسجد میں رہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی دلچسپی کے باعث فارسی کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی بھی سیکھی۔ اتفاق سے ایک دن مسجد میں ان کی افغان بادشاہ حبیب اللہ خان کے ایک عہدیدار سے ملاقات ہو گئی۔ نوجوان سلطان محمد خان کی لسانی مہارت اور ذہانت سے متاثر ہو کر عہدیدار انہیں کابل کے شاہی دربار میں لے گیا جہاں وہ افغان بادشاہ کے ترجمان اور سینئر وزیر بنا دیئے گئے۔ بعد میں وہ برطانیہ چلے گئے، جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران اقبال سے دوستی بھی ہوئی۔ آخر کار وہ ایک ماہر وکیل اور باوقار انسان کی حیثیت سے سیالکوٹ لوٹ آئے۔
سفر کے دوران متعدد بیویاں سلطان محمد خان کی زندگی کا حصہ بنیں جن میں افغان امرا کی بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ سیالکوٹ واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنی آخری اور جواں سال بیوی فیض کی والدہ سے شادی کی جس کے بعد فیض کی پیدائش ہوئی۔
فیض نے اسکاچ مشن ہائی اسکول میں شمس العلما کے نام سے معروف سید میر حسن سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ فیض کے ملحد ہونے کے تمام الزامات بعد کے ہیں، انہوں نے نو عمری میں قرآن حکیم کا ایک حصہ حفظ کیا تھا، یہ روایت آج بھی مسلم گھروں میں رائج ہے۔
اتفاق سے ان کے عقیدے کا معاملہ ایک دلچسپ انداز میں اس وقت سامنے آیا جب بدنام زمانہ راولپنڈی سازش کیس میں فیض 1951ءسے 1955ءتک قید رکھے گئے۔ یہ نئی ریاست پاکستان کے بائیں بازو کی جانب جھکاو رکھنے والے کچھ فوجی افسروں کا منصوبہ تھا، جو مصطفیٰ کمال اتا ترک کی طرز پر حکومت کا تختہ الٹ کر جمہوریت قائم کرنا چاہتے تھے۔ فیض اور نو خیز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو اس منصوبے کا حصہ بننے کے لئے کہا گیا۔ انہوں نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا، شاید اس منصوبے کی ناکامی کی وجہ بھی مقبول حمایت نہ ہونا تھی، بہرحال یہ منصوبہ افشا ہو گیا اور اس میں ملوث تمام افراد، جن میں فیض بھی شامل تھے، کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں فیض نے اپنے ساتھی قیدیوں کو قرآن کی تعلیم دے کر اپنے لیے مصروفیت کی راہ نکالی۔ جیل انتظامیہ کو بتایا گیا تھاکہ ان کے یہ سارے قیدی بے دین کمیونسٹ ہیں۔
کلاسیکی سنگم
سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، فیض علامہ اقبال کی سفارش پر لاہور کے معروف گورنمنٹ کالج داخل کرائے گئے۔ علامہ اقبال مقامی مقابلوں میں نو عمر فیض کی نظمیں سن چکے تھے اور ایک ایسے ہی مقابلے میں فیض نے ان سے انعام بھی پایا تھا۔ فیض نے ذاتی دلچسپی کی بنا پر سکول میں ہی اردو انگریزی ادب کے کلاسیک شعرا کو پڑھ لیا تھا۔ بقول ان کے اردو کلاسیک میر تقی میر، مرزا رفیع سودا اور اسداللہ غالب نے انہیں مسحور کر دیا، بعض اوقات نوجوان فیض کا تخیل ان شعرا کا احاطہ نہ کر پاتا۔ اردو غزل اور شاعری کی روایت سے جڑے ہونے کی وجہ سے فیض نہ صرف اردو کے آخری کلاسیکی شاعر ہیں بلکہ کلاسیکی اور جدید غزل کاسنگم بھی مانے جاتے ہیں۔
فیض کا پہلا شائع شدہ مجموعہ’ نقشِ فریادی‘ محبت، خوبصورتی، زیاں اور محبوب کے التفات کے متعلق ایک نوجوان شاعر کے مخصوص خیالات سے شروع ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نثر لکھنے والوں کے برعکس، جن کا فن برسوں میں پختہ ہوتا ہے، ایک شاعر جوانی میں اپنا بہترین کلام تخلیق کرتا ہے۔ غالباً غالب کے بارے میں بھی یہ سچ تھا، جنھوں نے 20 سال کی عمر تک اپنی بہترین اور انتہائی صوفیانہ شاعری تخلیق کر لی تھی لیکن فیض کا معاملہ مختلف رہا، جن کا پہلا مجموعہ جوانی کی جذباتی مشغولیت۔ محبت سے شروع ہوتا ہے۔ فیض نے خود اس تعلق کو اس مجموعے کے پہلے حصے میں غالب قرار دیا جس میں -29 1928ءسے لے کر 1934-35ءتک کی نظمیں شامل ہیں۔
جیسا کہ ان کی عادت اور زندگی کا فلسفہ تھا، فیض اپنی داخلی اور بیرونی دنیا کو جوڑنے میں کامیاب رہے اور اسی طرح جیسا انہوں نے بتایا کہ 1920ءکی دہائی کے دوران برصغیر میں خوشحالی کے باعث ایک بے پروائی سی تھی، شاعری اور نثر دونوں غیر فکری، گہرایت سے عاری مستقل طور پر ایک جشن منانے کا مزاج لئے ہوئے تھیں۔ اس دور کے شاعروں میں حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری نمایاں ہیں، جبکہ نثر میں فلسفہ ”فن برائے فن“ مروج تھا جس میں معاشرتی حالات کو بدلنے کی فنکار پر عائد ذمہ داری کو زبردست انداز میں مسترد کیا جاتا ہے۔
1920ءکی دہائی کے اختتام تک 1917ءمیں برپا ہونے والے روسی انقلاب سے پیدا ہونے والا انقلابی جوش و جذبہ کم ہو رہا تھا۔ جرمنی، برطانیہ اور چین میں بھی اسی طرح کے انقلابات ناکام ہو گئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ، جس نے جنوب مشرقی یورپ، مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے بڑے حصوں پر حکمرانی کی تھی، کو مفتوحہ علاقوں میں شامل کر کے تقسیم کر دیا گیا تھا۔ خلافت کا خاتمہ خود ترک قوم پرستوں نے کیا، جس کی قیادت کمال اتاترک نے کی۔ 1929ءکے اوائل میں پیدا ہونے والے عالمی مالی بحران کے نتیجے میں پوری دنیا میں معاشرتی بے امنی پھیل گئی۔ 1933ءمیں جرمنی میں ایڈولف ہٹلر اور اس کی نازی جماعت کو عروج حاصل ہوا۔ برصغیر لازمی طور پر اس بین الاقوامی ہلچل کے اثرات سے محفوظ نہ تھا۔ یہاں بھی شہروں میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا، دیہات میں کاشتکار برباد ہو گئے، خوف اور بے یقینی کی فضا نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فن برائے سماج
ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی تشکیل برصغیر میں ادب اور فنون لطیفہ کی ایک نئی تحریک کا پس منظر ثابت ہوئی۔ ادب، ڈرامہ، شاعری، موسیقی اور سنیما سے آنے والے انجمن کے ابتدائی ارکان زیادہ تر اردو میں ہی لکھتے تھے۔ اس تحریک کی ابتدا 1932ءمیں ”انگارے“ کے عنوان سے چار نوجوان مصنفین سجاد ظہیر، احمد علی، محمود الظفر اور رشید جہاں کے تحریر کردہ دس افسانوں کی اشاعت تھی۔ سجاد ظہیر بلاشبہ فیض کی سرپرستی کرنے والے تاحیات دوست اور اس تحریک کے روح رواں تھے۔ 1936ءمیں جاری ہونے والا انجمن ترقی پسند مصنفین کا پہلا منشور اس تحریک کے مقاصد کی ایک جھلک پیش کرتا ہے:
”یہ ہماری انجمن کا مقصد ہے کہ ادب اور دیگر فنون کو قدامت پسند طبقات سے آزاد کرائیں جن کے ہاتھوں یہ انحطاط پزیر ہیں اور آرٹ کو لوگوں سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے حقائق قلمبند کئے جائیں، ساتھ ہی جس مستقبل کے ہم متمنی ہیں اس کے حصول کیلئے رہنمائی کریں“۔
اس نئی تحریک نے ”فن برائے فن“ کے فلسفے کی بھرپور مذمت کی۔ فنکار کے لیے یہ فرض سمجھا گیا کہ وہ اپنے فن کو معاشرتی حالات پر تنقید اور نئے معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لئے ایک آلے کے طور پر اسے استعمال کرے۔
1934ءمیں فیض نے اپنی کالج کی تعلیم مکمل کی اور امرتسر کے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں پڑھانا شروع کیا۔ یہیں ان کی صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ رشید جہاں کے ساتھ دوستی ہوئی، دونوں مدرس، ادیب اور ترقی پسند تھے۔ انہوں نے فیض کو انجمن ترقی پسند مصنفین میں شامل ہونے پر آمادہ کیا اور یوں ان کی زندگی اور نظریہ ہمیشہ کے لئے بدل گیا۔
فیض کے اپنے الفاظ میں ”انجمن میں شمولیت نے میری آنکھوں کے سامنے ایک نئی دنیا کھول دی۔ پہلا سبق جو میں نے سیکھا وہ یہ تھا کہ اپنے ارد گرد پھیلی دنیا سے خود کو الگ کرنے سے متعلق سوچنا بے معنی ہے…آخرکار مجھے یہ ادراک ہوا کہ کوئی بھی شخص اپنی تمام تر محبتوں، نفرتوں، خوشیوں اور غموں کے ساتھ ایک بڑے وجود کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ زندگی کا غم اور دنیا کے دکھ ایک جیسے ہیں“۔
یوں انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے کے دوسرے حصے کا آغاز ایک قابل ذکر نظم ’میرے محبوب مجھ سے پہلی سی محبت نہ مانگ‘ سے کیا۔ فیض کا یہ پہلا تجربہ تھا جو انسانیت سے پیار کرنے والے ’محبوبوں‘ کے ساتھ محبت پر مبنی تھا، علیحدگی کا درد ان تمام لوگوں کی درد میں بدل گیا جو ”ان گنت صدیوں کے بہیمانہ طلسم “ برداشت کر رہے ہیں، مذکورہ نظم میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا:
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
معاشرتی انصاف، استحصال اور ناانصافی کی مخالفت کے نظریات سے فیض کی وفاداری کا زبردست اعلان ان کی نظم ’ بول ‘میں ہوتا ہے۔ یہ تمام ادیبوں اور فنکاروں کے لئے جنگی ترانہ ہے۔ سابق سوویت یونین قیام کے دوران فیض کی ترجمان اور قریبی دوست لڈمیلہ وسیلیوا کے بقول ’بول‘ فیض کی زندگی کا ماٹو ہے، جو لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی 1936ءمیں ہونے والی کانفرنس سے واپسی کے فوراً بعد تحریر کیا گیا۔ اس نظم میں فیض نے آخر کار اپنے برطانوی حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جانے والے مظلوم عوام کی خوبصورت عکاسی کی ہے:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زبان اب تک تیری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
’بول‘ میں فیض نے فطرت کے جبر، غریبوں کے بچوں کا نوحہ، معاشرے میں ظلم و آزادی کی بڑھتی ہوئی کشمکش کی نشاندہی کی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا فنکار ٹھوس حقائق اور ظلم کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟ فیض نے اس امر پر اظہار افسوس کیا کہ بعض فنکاروں نے ناگوار حقائق پر مبنی تحریروں کو ’پروپیگنڈا‘ قرار دے کر انہیں فن سمجھنے سے انکار کر دیا۔ فیض خوبصورتی کے پرستار رہے لیکن ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرنا بہرحال زیادہ قابل قدر ہے۔ باغبان کی خستہ حالی کو نظرانداز کر کے پھول کی خوبصورتی اور خوشبو کی تعریف کیسے کی جا سکتی ہے؟ اس کے بعد فیض کی زندگی اور شاعری ایسے خستہ حال لوگوں کے لئے وقف ہو گئی:
آج کے نام اور آج کے غم کے نام
زرد پتوں کا بان جو میرا دیس ہے
درد کا انجمن جو میرا دیس ہے
ان کی شاعری ’فن برائے فن‘ کو زبردست انداز میں مسترد کرنے اور ناانصافی کو چیلنج کرنے سے عبارت تھی۔
مکمل ادارک
ہمیشہ بائیں بازو کے نظریات کا حامل سمجھے جانے والے فیض اپنی رائے میں بالکل آزاد تھے۔ انہوں نے اپنی نظم ’ایک سیاسی رہنما کیلئے ‘ میں برصغیر کے عوام کی امنگوں کو دبانے کی کوشش کرنے پر موہن داس کرم چند گاندھی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم اس کے باوجود انہوں نے برطانوی فوج کے پروپیگنڈہ محکمے میں شمولیت اختیار کر لی جب انہیں یقین ہو گیا کہ ہٹلر اور اس کی فوجوں نے جاپانیوں سے اتحاد کر لیا ہے جو انگریزوں کے مقابلے میں ہندوستان کے لئے انتہائی سنگین خطرہ ہے۔
وہ ان ابتدائی لوگوں میں شامل تھے جو آزادی کو ہندوستان کی دو ممالک میں فرقہ وارانہ تقسیم کی ایک زہر آلود چال سمجھتے تھے۔ ’طلوع آزادی ‘ کا سخت انداز بیان ان کی اسی سوچ کا مظہر ہے، جس نے پاکستان میں ان کے ہم عصر لوگوں کو سخت غم و غصے میں مبتلا کر دیا:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
آزادی سے کچھ عرصہ قبل 1947ءکے اوائل میں فیض سے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کا پہلا ایڈیٹر بننے کے لئے کہا گیا۔ وی جی کیرنن، جو کلام فیض کے ممتاز مترجم ہیں، لکھتے ہیں کہ فیض نے اخبار میں مقامی سطح پر رکاوٹوں کی مذمت کرنے اور بیرون ملک ترقی پسند نظریات کی ترویج کے لئے نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کا استعمال کیا۔ انہوں نے ’پاکستان ٹائمز‘ کو ایسا اخبار بنایا جس میں چھپنے والی آرا کو دور دور تک معتبرمانا جاتا اور ان کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ پاکستان ٹائمز میں ان کی ایڈیٹر شپ کے دوران نئی ریاست پاکستان میں فیض نے ٹریڈ یونینوں کے ساتھ اپنے کام کے ذریعے مزدوروں، خواتین، کسانوں اور غریبوں کے مطالبات کو آگے بڑھانے میں پیش قدمی کی۔ اپنی انہی سرگرمیوں کے باعث انہیں بدنام زمانہ راولپنڈی سازش کیس میں خود ساختہ الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ اگلے دو برسوں میں انہیں ایک خفیہ ٹریبونل کے سامنے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا، اس ٹربیونل کو فائرنگ سکواڈ کے ذریعے موت کی سزا دینے کا اختیار حاصل تھا۔ اس دوران وہ اپنی دوسری کتاب ’دست صبا‘ کی قابل ذکر نظمیں لکھ کر اپنے جیلروں کو پکار رہے تھے:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں انگلیاں ڈبو لی ہیں میں نے
اس کتاب کا آغاز خود فیض کے تحریر کردہ ایک مختصر تعارف سے ہوتا ہے جس میں فنکار کی ذمہ داریوں پر علمی انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے، فیض لکھتے ہیں: ”شاعر کا کام احساس اور مشاہدہ ہی نہیں بلکہ جدوجہد اور کوشش بھی ہے۔ شاعرکے ماحول کے رواں اور متحرک ’قطروں‘ کے ذریعے اس کی زندگی کے سمندر کا مکمل فہم شاعر کے ادراک کی گہرائی پر منحصر ہے۔ اس سمندر کو دوسروں کو دکھانے کا انحصار شاعر کی فنی گرفت پر ہے۔ شاعر کی قابلیت یہ ہے کہ سمندر میں کچھ نئی موجیں پیدا کرے اور اس کا انحصار اس کے خون کی حدت اور اس کے جذبوں کے پرجوش ہونے پر ہے۔ تینوں کاموں میں کامیابی مسلسل جدوجہد کا مطالبہ کرتی ہے“۔
فیض کا یہ کہنا تھا کہ نظربندی کے سال ان کے سب سے زیادہ کارآمد تھے۔ ان کے مطابق جیل میں بیتا وقت پھر سے پیار کرنے کے مترادف تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس تجربے نے انہیں اپنے خیالات کو شاعری میں ڈھالنے کی تحریک پیش کی۔
اس دور کی ان کی ایک سب سے خوبصورت نظم کا عنوان ہے ’میری سرزمین کی مٹی‘۔ اسے لکھنے کی تاریخ پاکستان کی آزادی کی پانچویں سالگرہ 15 اگست 1952ءہے۔ فیض نے اپنی اہلیہ ایلس کو لکھا کہ جیل میں رنگا رنگ جھنڈیاں، روشنیاں اور لاوڈ اسپیکر لگا کر ایک جشن منایا گیا۔ جب پاکستانی حکومت یہ جشن منانے میں مصروف تھی، انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستان کے عام لوگوں کیلئے ایسا کچھ بھی نہیں جس پر وہ خوش ہو سکیں۔ آزادی کے صرف ایک سال بعد محمد علی جناح کا انتقال ہو گیا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو فیض کی 1951ءمیں گرفتاری کے فوراً بعد ہی عوام کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ 1958ءمیں پہلی فوجی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان کا سیاسی بحران اور عدم استحکام اپنے عروج کو پہنچا۔
یہ اس نظم ’ میری سرزمین کی مٹی ‘کا پس منظر تھا، جو بے حد مقبول ہوا اور آج بھی وسیع پیمانے پر اس کا حوالہ دیا جاتا ہے:
نثار میں تیری گلیوں
کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
گھر واپسی
ان کی رہائی کے بعد جیسے جیسے ان کی شہرت بڑھتی گئی، پاکستان میں آنے والی پے درپے حکومتوں کے لیے ان کا خوف بھی بڑھتا رہا۔ یہ بالکل سچ تھا خاص طور پر جب 1962ءمیں انہیں نوبل انعام کے مساوی سمجھا جانے والا سوویت بلاک کا لینن امن انعام ملا۔ انہیں فوجی حکومت نے متنبہ کیا تھا کہ وہ اس ایوارڈ کو قبول نہ کریں، اس وقت تک، پاکستان امریکہ کا اتحادی بن گیا تھا اور بائیں بازو کی تمام ترقی پسند آوازوں کو خاموش یا انہیں بہت زیادہ سنسر کر دیا گیا تھا۔ فیض بہرحال اپنا ایوارڈ وصول کرنے کے لئے ماسکو روانہ ہو گئے۔ ایوارڈ وصول کرنے کے موقع پر ان کی تقریر ہر دور کی ایک عظیم انسان دوست اور امن پسند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انہوں نے کہا:
’انسان کو ملنے والی آسانی، سائنس اور صنعت نے ہم میں سے ہر ایک کیلئے ہر چیز کی فراہمی ممکن بنا دی ہے جو ہماری آرام دہ اور پرسکون زندگی کی ضرورت ہے بشرطیکہ قدرتی پیداوار کے لاتعداد خزانوں کو چند لالچی لوگوں کی ملکیت قرار نہ دیا جائے بلکہ انہیں تمام انسانیت کے مفاد کے لئے استعمال کیا جائے، تاہم یہ تب ہی ممکن ہے جب انسانی معاشرے کی بنیادیں لالچ، استحصال اور ملکیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انصاف ، مساوات، آزادی اور سب کی فلاح و بہبود پر مبنی ہوں، مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے کبھی شکست نہ کھائی، بالٓاخر کامیابی سے ہمکنار ہو گی، آخر کار انسانیت کی بنیاد جنگوں، نفرت اور ظلم کی بجائے فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کے پیغام پر قائم ہو گی: ”آپ کی ہر بنیاد عیب دار ہے، سوائے محبت کے جو بے عیب ہے“۔
جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں انہیں متعدد بار گرفتار کیا گیا، 1965ءمیں جب پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو انہیں ایک پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوستوں نے ان پر ’قومی گیت‘ لکھنے کے لئے دباو ڈالا۔ قومی گیت لکھنے کے بجائے انہوں نے ’سپاہی کا مرثیہ‘ لکھا:
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
تمری سیج جوان کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
اس سے قوم پرستوں اور بائیں بازو دونوں میں اشتعال پیدا ہوا اور کچھ عرصے کے لئے انہیں روپوش ہونا پڑا۔ 1971ءمیں پاکستان کی ’دوسری تقسیم‘ اور بنگلہ دیش میں خونریزی کے صدمے کے بعد پاکستان کی پہلی منتخب سول حکومت اقتدار میں آئی۔
فیض کو اس دور حکومت میں مشیر ثقافت مقرر کیا گیا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ساتھ ساتھ لوک ورثہ کا ادارہ تشکیل دیا۔ 1974ءمیں وہ اس وفد میں شامل تھے جو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ خانہ جنگی کے بعد تعلقات کی بحالی کے لئے بنگلہ دیش گیا تھا۔ اگرچہ یہ سرکاری دورہ زیادہ کامیاب نہیں رہا، تاہم اپنے پرانے دوست شیخ مجیب الرحمٰن کے مشورے پر فیض نے اپنے دکھ کے اظہار کے لئے مشہور نظم ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘ لکھی۔
پاکستان میں 1977ءکی فوجی بغاوت کے بعد انہوں نے بیروت جانے کا فیصلہ کیا۔ وہیں، انہوں نے ایفرو ایشین مصنفین ایسوسی ایشن کے میگزین ’لوٹس‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے یاسر عرفات کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹر بیروت میں پی ایل او کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے تھے، اس دوران وہ ’ایک فلسطینی بچے کے لیے لوری‘ لکھ رہے تھے:
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
1982ءمیں وہ اسرائیلی فوج کے ٹینکوں سے بچتے بچاتے زندگی کے آخری برسوں میں واپس لاہور آ گئے۔
جو وہ وصول نہ کر سکے
اگرچہ برصغیر بھر سے انہیں محبت ملی، تاہم تمام عظیم فنکاروں کی طرح فیض بھی اپنی زندگی کے کام سے مطمئن نہ تھے۔ متعدد مواقع پر انہوں نے کہا کہ انہیں ان کے کام سے زیادہ محبت اور داد و توصیف ملی اور اس کے عوض خاطر خواہ کام نہ کر کے وہ خود کو ہمیشہ مجرم محسوس کرتے رہے۔
یہ شاعر کی سالگرہ ہے، شراب لے آﺅ
مقام، لقب، اعزاز، کیا نہیں ملا
صرف ایک ہی کمی ہے، جس کی تعریف ہو رہی ہے
کسی کتاب کے قابل شاعری نہ کر پائے
فیض ان تمام لوگوں کی طرف سے ادا کی جانے والی قیمت کا درد بھی سمجھتے تھے جو ایک نظریاتی انسان کیلئے وقف تھی۔ انہوں نے 1941ءمیں برطانوی کمیونسٹ پارٹی کی ایک رکن ایلس سے شادی کی۔ وہ اپنی بہن کرسٹابیل سے ملنے ہندوستان آئی تھیں، جنھوں نے ایک پروفیسر سے شادی کر لی اور برصغیر میں ہی رہائش پزیر ہو گئی تھیں۔ کرسٹابیل کے شوہر ایم ڈی تاثیر انجمن ترقی پسند مصنفین کے اصل بانیوں میں سے تھے ، انہوں برطانیہ میں انجمن کے بنیادی منشور کا مسودہ تیار کرنے میں مدد کی تھی۔ فیض سے شادی کے بعد ایلس ساری زندگی ہندوستان اور پاکستان میں مقیم رہیں اور انہیں لاہور میں دفن کیا گیا۔ جیل سے اپنے پہلے خط میں فیض نے ان کے بارے میں گفتگو کی کہ وہ سماجی انصاف کے لئے اپنی جدوجہد کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں:
”پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ کسی کے قریبی اور عزیزوں کو کسی چیز کی تکلیف برداشت کرنے کی اجازت دینا غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ ایک طرح دیکھا جائے تو آئیڈیلزم یا مخصوص اصولوں کو برقرار رکھنا بھی خود غرضی کی ایک شکل ہے کیونکہ کسی خاص آئیڈیل کی پوجا میں یہ فراموش ہوجاتا ہے کہ دوسرے مختلف نظریات رکھتے ہیں اور نظریے سے ایک کی لگاوٹ دوسروں کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہے“۔
سلیمہ، جو فیض کی دو بیٹیوں میں بڑی ہیں، فیض کے اس پچھتاوے کو یاد کرتی ہیں جو انہیں اپنے بچوں کے بچپن کو نہ دیکھنے کے وجہ سے تھا اور بعد میں وہ اپنے نواسوں نواسیوں کے بچپن کو بھی نہ دیکھ پائے، یہ پچھتاوا ان کے کام اور ان کے نظریات کے باعث تھا۔
فیض جو میرے نانا ہیں، کے ساتھ میرے تعلق کی ابتدائی یاد اسکول میں ایک ”ملحد“ اور ”کمیونسٹ“ کے طور پر ہوئی تھی جو اس وقت میرے لئے کچھ معنی نہیں رکھتا تھا۔ تاہم بچے ہوتے ہوئے بھی ہم جانتے تھے کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں تھے۔ جب وہ گھر ہوتے، جو کہ وہ اکثر نہیں ہوتے تھے، فضا میں خاصا جوش و خروش رہتا تھا، لوگ ہر وقت آتے جاتے رہتے۔ پولیس کی ایک نفری نے ہمارے گیٹ کے باہر مستقل طور پر ڈیرے ڈالے ہوتے۔ نواسے نواسیوں کے ساتھ انہیں کبھی بھی زیادہ نجی وقت نہیں ملتا تھا، کیوں کہ وہ دوستوں اور مداحوں میں مسلسل گھرے رہتے تھے۔ یقیناً ان کا سفر آخرت بہت بڑا اور خالصتاً عوامی نوعیت کا معاملہ تھا، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم نجی طور پر ان کیلئے کھل کر رو بھی نہ سکے۔
ہم سب ان کے کنبہ کے افراد ان کی میراث کا بھاری بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ جب لوگ ان کے کارناموں کے باعث ہم پر اپنا پیار نچھاور کرتے ہیں تو ہمیں تکلیف دہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے نظریات پر قائم رہنے کے لئے ہمیں زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے خوفزدہ کرنے والا ایک سوال لازمی پوچھا گیا ’کیا آپ بھی شاعری کرتے ہیں؟‘ یقیناً ہم شاعری نہیں کرتے۔ سمجھ نہیں آتی اب ہمیں جانچا کیسے جائے گا؟ مرنے سے ذرا پہلے میرے نانا اپنے آبائی گاوں گئے۔ گاﺅں کی مسجد کے باہر ایک پتھر پر ان کی لکھی ہوئی واحد فارسی نعت کندہ ہے:
خواجہ بہ تخت بندہءتشویشِ ملک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
(ترجمہ: تخت پر بیٹھا ہوا شاہ ملک و مال کی تشویش میں مبتلا ہے، جبکہ خاک پر بیٹھا ہوا آپ کا گدا وقت کے شہنشاہ کے لیے بھی باعثِ رشک ہوتا ہے)
یہ مضمون فیض احمد فیض کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر معروف عالمی جریدے ’ہمل‘ میں شائع ہوا تھا۔ معمولی رد و بدل کے ساتھ اسے قارئین جدوجہد کے لئے پیش کیا گیا۔ انگریزی سے ترجمہ: ایف ایس