خبریں/تبصرے

برطانوی پریس میڈیا چیف مستعفی، کیا برطانوی میڈیا نسل پرست ہے…؟

لاہور (جدوجہد رپورٹ) برطانیہ کی ایک بڑی میڈیا تنظیم کے سربراہ ’ایین مرے‘ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے یہ استعفیٰ برطانوی شہزادے ہیری اور انکی اہلیہ میگن مارکل کے امریکہ میں دیئے گئے ایک انٹرویو پر برطانوی میڈیا کے سخت ردعمل کی وجہ سے دیا ہے۔ ایین مرے دوسری بڑی میڈیا شخصیت ہیں جو شاہی جوڑے کی جانب سے لگائے گئے نسل پرستی اور تعصب کے الزامات کے بعد بننے والی گرما گرم بحث کے دوران رخصت ہوئے ہیں۔

اے پی کے مطابق ایین مرے کا کہنا ہے کہ ”میں ایک بیان جاری کرنے کے بعد سوسائٹی آف ایڈیٹرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہو رہا ہوں کہ میڈیا کے شعبہ میں نسل پرستی کے مسئلے سے نپٹنے پر ڈاؤن پلے کئے جانے کا احساس بہت سے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔“

بدھ کے روز ایین مرے نے کہا کہ ”ہیری اور میگن پر میڈیاپر حملے کرنے کا الزام عائد کرنے والے بیان میں مزید واضح طور پر تعصب کی مذمت کی جا سکتی تھی، یہ واضح طور پر پریشانی کا باعث بنا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ”بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر میں سوسائٹی کی قیادت کرتا ہوں اور اسی طرح اس کو بھی ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے اور اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بورڈ اور ممبر شب کیلئے یہ سب سے بہتر ہے کہ میں ایک طرف رہوں تاکہ تنظیم اپنی ساکھ کو دوبارہ تعمیر کرنا شروع کر سکے۔“

واضح رہے کہ اوپرا ونفرے کے ساتھ انٹرویو میں میگن اور ہیری نے میڈیائی سکروٹنی کے شدید دباؤ کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ نسلی امتیاز کی کوریج میں نسل پرستانہ عنصر موجود ہے۔ ہیری نے یہ بھی کہا کہ برطانوی شاہی خاندان ٹیبلائڈ پریس سے خوفزدہ تھا، جس پر قابوپانے کیلئے انتہائی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔

400 اخبارات اور دیگر خبررساں اداروں پر مشتمل سوسائٹی آف ایڈیٹرز نے اس انٹرویو کے بارے میں ایک سخت بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ ”برطانیہ کا میڈیا متعصبانہ نہیں ہے اور اسے اس اہم کردار سے باز نہیں رکھا جائے گا جو امیر اور طاقتور کو جوابدہ بناتا ہے۔“ تاہم کچھ صحافیوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور 160 سے زیادہ نامہ نگاروں اور ایڈیٹرز نے ایک خط پر دستخط کئے جو سوسائٹی آف ایڈیٹر زکے بیان سے اتفاق نہیں کرتے۔

دی گارڈین کی ایڈیٹر کیتھرین وینر نے کہا کہ ”ذرائع ابلاغ کو زیاہد سے زیادہ نمائندہ اور خود آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔“ آئی ٹی وی کی نیوز پریزنٹر چارلین وائٹ نے سوسائٹی کے سالانہ پریس ایوارڈ کی میزبانی کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ”اس تنظیم نے انہیں اپنے تنوع کو بہتر بنانے کیلئے ایوارڈز کی میزبانی کا کہا تھا لیکن وہ اپنے الفاظ میں قائم رہنے میں ناکام رہے۔ میں صرف ان تنظیموں کے ساتھ کام کرتی ہوں جو اپنے کہے پر عمل کرتے ہیں۔“

انکا کہنا تھا کہ ”چونکہ گزشتہ سال امریکہ میں شروع ہونیوالی بلیک لائیوز میٹر تحریک کا ابھار برطانیہ میں بھی ہوا تھا۔ جس کے بعد اس ملک کے ہر ایک ادارے کو آخر کار اپنی ناکامیوں اور حیثیت کو دیکھنا پڑا کہ وہ اپنی دیواروں کے باہر اور اندر نسلی اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا برطاؤ کرتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسے لگتا ہے جیسے اس بحث میں برطانوی میڈیا کو استثنا دے دیا گیا۔“

ایین مرے سے قبل پیرس مورگن کو بھی اس وقت استعفیٰ دینا پڑا تھا جب ایک ٹی وی شو میں میگن سے متعلق انکے تبصرے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ مورگن نے اپنے ٹی وی شو میں میگن کے انٹرویو سے متعلق کہا کہ ”جو کچھ وہ کہہ رہی ہیں میں اس کے ایک لفظ پر بھی یقین نہیں کرتا۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts