شاعری

دہشت گردوں کے حملے کے بعد

ستیہ پال آنند

اندھی، اندھیری رات ہے جس میں
سائے اک دوجے سے گتھم گتھا لڑتے
گالی بکتے
جانے کس سوُ بھاگ رہے ہیں
بھوت پریت، چھا یا چھپروں سے باہر آکر
ہوا میں لہراتے ہڈیوں کے پنجر جیسے
سوئے سوئے جاگ رہے ہیں
سب رستے مسدود ہیں، لیکن
کوئی توان رستوں کو اپنے مریل
قدموں سے گن گن کر ماپ رہا ہے

اک عورت ہے
بوڑھی، بے حد بوڑھی؟
نہیں، جوانی کی سرحد سے بس دو چار قدم ہی آگے
کچھ کچھ بوڑھی!

آدھی رات، اندھیری
عورت کے اک ہاتھ میں تو اک لالٹین ہے
اور دوجے کو سائبان سا اپنی آنکھوں پر رکھ کر وہ
ڈھونڈھ رہی ہے
پگڈنڈی کے
آس پاس کھیتوں کے اوبڑ کھابڑ جنگل میں
کچھ!
ہاتھ میں اس کے اس کے کچھ بھی نہیں ہے
زخموں کی پٹی یا مرہم
یا پانی کی اک گڈوی ہی!
بوڑھی ماں کو کیا خطرہ ہوگا بھوتوں سے؟

ڈھونڈھ رہی ہے اپنے خاوند اور بیٹوں کو
زندہ؟ زخمی؟ آس نہیں کوئی بھی اب تو!
کٹے پھٹے سب عضو، بریدہ شاخوں سے بکھرے ہر جانب
انتڑیوں کا ڈھیرسا، بکھری اڑی ہوئی رسیاں ہوں جیسے
شاید وہ پہچان ہی لے ان کٹی پھٹی لاشوں میں خاوند
اور بیٹوں کو!

شاید؟ شاید؟
وہ تو نہیں ہے؟ غور سے دیکھوں؟
جھکی ہے وہ ایک بریدہ ہاتھ کی خاطر
آگے بڑھ کر
ایک انجانی لاش کی جیسے زندہ آنکھیں
نرمی سے چھوتی ہے لیکن بند نہیں ہوتیں یہ آنکھیں
مُڑ مُڑ کر پھر کھل جاتی ہیں!
آہیں بھرتی سرد ہواجب
چلتی ہے تو جیسے مردے
اپنے اپنے زخموں کی تفصیل بتاتے
روتے روتے سوجاتے ہیں!

اونچی، لمبی گھاس کی سرسر
اور ہواکی شائیں شائیں
اک آوازہ، رات کا کوئی پنچھی جیسے چیخ رہا ہو
تب تک اک لمحے کو جیسے آوازوں نے
خود اپنے گلے کوگھونٹ دیا ہو
خاموشی، چپ چاپ، ہوا کی نبضیں جیسے
رک سی گئی ہوں
اور تب اس نے دیکھ لیا ان کی لاشوں کو!
(کسی پیڑ کی شاخوں جیسی، جڑی ہوئی سی)
اک دوجے سے گتھم گتھا
خاوند، بھائی، تینوں بیٹے!

روئی نہیں!
چیخی بھی نہیں!
گم سم سی گر کر لیٹ گئی
لاشوں کے ساتھ ہی!
اپنی کوکھ سے تینوں بیٹے
ماں کی کوکھ سے ایک ہی بھائی
اور خاوند سرتاج…سبھی سے ہوئی وداعی!

Roznama Jeddojehad
+ posts