فاروق سلہریا
پاکستان میں بہادروں کی ایک قسم پائی جاتی ہے جن کا فلسفہ ہے: کمزور کے گلے پڑ جاؤ، طاقتور کے پاؤں۔
سوشل میڈیا پر ایسے ’محب وطن پاکستانی‘ آج کل حامد میر کو دل بھر کر گالیاں بک رہے ہیں۔ آسان کام ہے۔ کوئی خطرہ مول نہیں لینا پڑتا۔ ایسے کسی ’بہادرپاکستانی‘ کو گالیاں دینے کے بعد خیال تک نہیں آتا کہ جنرل رانی بارے بھی، کچھ اور نہیں، گوگل سرچ ہی کر لوں۔ شائد حامد میر پر غصہ تھوڑا کم ہو جائے۔ یہ ’بہادر پاکستانی‘ علم سے بھی اتنا ہی پرہیز برتتے ہیں جتنا طاقتور پر ہر جائز تنقید سے۔
چند روز پہلے اسرائیل فلسطین پر وحشیانہ بمباری کر رہا تھا۔ کڑاہی گوشت کھانے میں مصروف کروڑوں ’بہادر پاکستانیوں‘ کو فرصت نہیں ملی کہ ایک ریلی ہی نکال دیں۔ فقط چند سو ’غدار‘ ہوں گے جو سڑکوں پر نکلے۔ لاکھوں ’بہادر پاکستانی‘ فلسطین کا بھرپور ساتھ نہ دینے پر، فیس بک پر بیٹھ کر ملالہ کو گالیاں دے رہے تھے۔ اسرائیل کو پاکستان میں بیٹھ کر بھی گالی دینے سے کترا رہے تھے مبادا ٹوئٹر یا فیس بک پیج ہی بند نہ ہو جائے۔
اسی طرح جب طالبان نے ملالہ اور ان کی ساتھیوں پر گولی چلائی تو مجال ہے ان ’بہادر پاکستانیوں‘ کے منہ سے مذمت کا ایک لفظ تک نکلا ہو۔ بجائے طالبان کی درندگی پر احتجاج کرنے کے، یہ ’بہادر پاکستانی‘ دل کھول کر اور ’مردانہ وار‘ ملالہ اور ان کے والد کو برا بھلا بولتے ہوئے پائے جائیں گے۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے ان ’بہادر پاکستانیوں‘ کو نقشے پر بھی وزیرستان تلاش کرنا مشکل ہو گا مگر پی ٹی ایم کو دن بھر گالیاں بکیں گے، غداروں کے ٹوٹے ٹوٹے کرنے کے مطالبے کریں گے مگر ٹی ایل پی کے چند لڑکے ٹریفک بلاک کر کے کھڑے ہو جائیں تو پورا لاہور اور راولپنڈی بند ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک بہادر لڑکی دریافت ہوئی ہے۔ اس کے بھائی، وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں نہ، بہت اتھرے ہیں۔ ان کے بارے میں، میں نے فیصلہ کر رکھا ہے کچھ نہیں لکھوں گا کیونکہ میں ’بہادر پاکستانی‘ ہوں نہ حامد میر۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔