طارق علی
عہد حاضر کے زیادہ تر جہادی گروہ پاکستانی اور مغربی خفیہ اداروں کی بد نسلی اولاد ہیں۔ ان کی پیدائش اسّی کی دہائی میں ہوئی جب اقتدار پر جنرل ضیا کا قبضہ تھا اور وہ افغانستان پر قابض بے دین روسیوں کے خلاف مغرب کی جنگ لڑ رہے تھے۔ تب شروع ہوئی تھی ان جہادی گروہوں کی سرکاری سرپرستی۔ اس سرپرستی سے مستفید ہونے والوں میں ایک مولانا عبداللہ بھی تھے جنہیں سرکاری عمارتوں کے قریب ہی، اسلام آباد کے دل میں، مدرسہ تعمیر کرنے کے لئے زمین الاٹ کی گئی۔ اس زمین میں جلد ہی توسیع کر لی گئی تا کہ لال مسجد میں توسیع کے ساتھ ساتھ، لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مدرسے تعمیر کئے جا سکیں۔ اس مقصد کے لئے سرکاری خزانے سے رقم جاری کی گئی۔ کاغذوں میں اس جگہ کی ملکیت حکومت کے پاس تھی۔
اسّی اور نوے کی دہائی میں یہ کمپلیکس افغانستان میں بعد ازاں کشمیر جانے والے جہادی نوجوانوں کے لئے ایک عبوری کیمپ بن گیا۔ مولانا عبداللہ سعودی فکر کے وہابی اسلام کے پیروکار تھے اور ایران عراق جنگ کے دوران وہ پاکستان میں شیعہ ’کافروں‘ کو ہلاک کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ شیعہ پاکستان کی آبادی کا بیس فیصد ہیں اور ضیا آمریت سے قبل اہل تشیع کی سنی اکثریت سے مخاصمت نہ ہونے کے برابر تھی۔ شیعہ مخالف کٹر فرقہ پرست دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کا نتیجہ اکتوبر 1998ء میں مولانا عبداللہ کے اپنے قتل کی صورت میں نکلا۔ ایک مخالف مسلم گروہ نے ایک روز ان کو اس وقت انکی اپنی ہی مسجد میں ہلاک کر ڈالا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے۔
اس کے بعد مسجد اور مدارس کے معاملات ان کے بیٹوں، عبدالرشید غازی اور عبدالعزیز نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ حکومت نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نمازِ جمعہ کی امامت مولانا عزیز کریں گے۔ ان کے خطبوں میں القاعدہ کی حمایت کی جاتی البتہ گیارہ ستمبر کے بعد مولانا تھوڑا محتاط ہو گئے۔ اعلیٰ سرکاری اور فوجی افسران ان کی امامت میں نماز جمعہ ادا کرتے۔ لاغر چہرے، ناہموار داڑھی والے نرم گو اور زیادہ تعلیم یافتہ رشید غازی کے ذمے کہانیاں گھڑنے اور ملکی و غیر ملکی صحافیوں کو متاثر کرنے کا کام لگا۔
نومبر 2004ء کے بعد البتہ جب زبردست امریکی دباؤ کے بعد افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی شروع ہوئی تو حکومت اور ان دونوں بھائیوں کے مابین تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ مولانا عزیز بالخصوص غصے میں تھے۔ مولانا رشید کے مطابق، جب ”پاکستانی فوج کے ایک ریٹائر کرنل نے قبائلی لوگوں کے خلاف فوجی کارروائی کے حوالے سے شرعی نقطہ نظر کے حوالے سے فتویٰ مانگا“ تو مولانا عزیز نے وقت ضائع کئے بغیر فتویٰ جاری کر دیا کہ مسلم فوج کا اپنے لوگوں کو ہلاک کرنا حرام ہے، ”اس کارروائی میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی نمازِ جنازہ جائز نہیں“ اور’’پاکستانی فوج سے لڑتے ہوئے ہلاک ہونے والے جنگجو شہید ہیں“۔ یہ فتویٰ جاری ہونے کے چند دنوں بعد ہی پانچ سو سے زائد ’علما‘ اس فتوے کی سر عام تائید کر چکے تھے۔ آئی ایس آئی میں موجود مسجد کے سرپرستوں کے زبر دست دباؤ کے باوجود دونوں بھائیوں نے فتویٰ واپس لینے سے انکار کر دیا۔ حکومت کا ردِ عمل حیران کن حد تک ساکت تھا۔ مولانا عزیز سے مسجد کی امامت واپس لے لی گئی اور انکی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری ہوا مگر گرفتاری عمل میں نہ آئی اور دونوں بھائی بلا روک ٹوک اپنی پرانی ڈگر پر چلتے رہے۔ شائد آئی ا یس آئی کا خیال تھا کہ یہ دونوں ہنوز سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
1948ء میں قائم ہونے والی آئی ایس آئی افواجِ پاکستان کی تینوں سروسز کے اہل کاروں پر مبنی ایک ادارہ تھا جس کے ذمے معلومات اکٹھی کرنا اور معلومات کا تجزیہ کرنا تھا جبکہ اس کا فوکس بھارت اور’اشتراکی تخریب‘ تھی۔ اس کے بجٹ اور حجم میں سوویت روس کے خلاف پہلی افغان جنگ کے دوران زبردست اضافہ ہو ا۔ اس عرصے میں اس نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی خفیہ اداروں کی معیت میں کام کیا۔ جیسا کہ اس کتاب میں آگے چل کر ذکر آئے گا، آئی ایس آئی نے مجاہدین کو مسلح کرنے اور انہیں تربیت دینے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے علاوہ بعد ازاں طالبان کی کابل میں گھس بیٹھ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ میں جتنی خود مختاری سی آئی اے یا ڈی آئی اے کو حاصل ہے، اتنی ہی خود مختاری کے ساتھ، اعلیٰ عسکری قیادت کی باقاعدہ منظوری سے آئی ایس آئی نے ہر جگہ کارروائیاں کیں۔
ازاں قبل 2004ء میں حکومت نے دہشت گرد ی کے ایک منصوبے کو ناکام بنانے کا دعویٰ کیا۔ حکومت کے مطابق مجوزہ منصوبے کے تحت چودہ اگست کے دن راولپنڈی میں جی ایچ کیو سمیت اسلام آباد میں کئی سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ مشین گنیں اور دھماکہ خیز مواد عبدالرشید غازی کی گاڑی سے برآمد ہوا۔ دونوں بھائیوں کے خلاف نئے وارنٹ جاری ہوئے اور دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقعے پر جنرل ضیا الحق کے بیٹے، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، اعجاز الحق نے اپنے ساتھیوں کو قائل کیا کہ وہ تحریری معافی نامے، جس میں مسلح جدوجہد سے تائب ہونے کا وعدہ کیا جائے، کے عوض دونوں بھائیوں کو معاف کر دیں۔ مولانا رشید کا دعویٰ تھا کہ یہ سارا منصوبہ مغرب کو خوش کرنے کے لئے بنایا گیا تھا اور انہوں نے ایک اخباری مضمون میں وزیر مذہبی امور سے کہا تھا کہ اگر ایسا کوئی معافی نامہ موجود ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے۔ کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔
جنوری 2007ء میں دونوں بھائیوں نے اپنی توجہ خارجہ امور کی بجائے داخلی امور پر مرکوز کر تے ہوئے فوری طور پر نفاذِ شریعت کا مطالبہ کر دیا۔ اب تک تو وہ مسلم دنیا میں امریکی حکمت ِعملی اور افغانستان میں طالبان کی حکومت گرانے میں مدد دینے والے، پاکستان میں امریکی پٹھو جنرل مشرف کی مذمت ہی پر قانع تھے۔ گو انہوں نے حال ہی میں جنرل مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی سرِ عام حمایت تو نہیں کی تھی لیکن یہ ایک کھلا راز تھا کہ وہ ان حملوں کی ناکامی پر ناخوش تھے۔ جنوری میں انہوں نے جو بیان جاری کیا وہ کھلم کھلا حکومت کو اشتعال دلانے کی کارروائی تھی۔ مولانا عزیز نے اپنا منشور جاری کیا: ’ہم پاکستان میں رقص اور موسیقی کی اجازت نہیں دیں گے۔ جنہیں ایسی چیزوں میں دلچسپی ہے وہ بھارت چلے جائیں۔ اب ہم مزید انتظار نہیں کریں گے۔ ہمارا نعرہ ہے شریعت یا شہادت‘۔ ناجائز تجاوزات قرار پانے والی دو مساجد گرائے جانے کی وجہ سے دونوں بھائی چوکنے ہو گئے تھے۔ جب ان کو لال مسجد اور لڑکیوں کے مدرسے کا وہ حصہ گرانے کا نوٹس ملا جو سرکاری اراضی پر تعمیر کیا گیا تھا تو انہوں نے کالے برقعوں میں ملبوس درجنوں طالبات کا جلوس روانہ کیا جس نے قریب واقع بچوں کی لائبریری پر قبضہ کر لیا۔ خفیہ والے بظاہر اس کارروائی پر حیران رہ گئے اور جلد ہی مذاکرات کے ذریعے قبضہ چھڑا لیا گیا۔
دونوں بھائی مسلسل حکومت کا امتحان لے رہے تھے۔ لال مسجد میں واقع جنسی تفریق پر مبنی مدارس میں شریعت نافذ کی گئی: کتبوں، سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کو نذر آتش کیا گیا۔ اس کے بعد طالبات کی آتش ِ قہر کا رخ اسلام آباد کے مہنگے چکلوں کی طرف ہو گیا۔ آنٹی شمیم کو نشانہ بنایا گیا جو ایک معروف نائکہ تھی اور نامناسب مقاصد کے لئے ’مناسب‘ لڑکیاں فراہم کرتی تھی۔ اس کے گاہکوں میں معتدل مذہبی رہنماؤں کے علاوہ شہر کے اچھے اور بڑے لوگ بھی شامل تھے۔ آنٹی اس چکلے کو دفتر کی طرح چلاتی تھی: دفتر دفتری اوقات میں کھلتا اور جمعے کے روز، بوقت دوپہر، بند کر دیا جاتا تاکہ گاہک قریبی لال مسجد میں نماز جمعہ ادا کر سکیں۔ اخلاقِ مطہرہ بریگیڈ نے چکلے پر حملہ کیا اور وہاں موجود خواتین کو ’آزاد‘ کروا لیا۔ زیادہ تر خواتین تعلیم یافتہ تھیں۔ کچھ بیوہ تھیں تو کچھ مطلقہ۔ سب کی مالی حالت انتہائی پتلی تھی۔ دفتری اوقات ان کے لئے موزوں تھے۔ آنٹی شمیم شہر سے فرار ہو گئی۔ اس کی ملازماؤں نے کہیں اور اسی طرح کی نوکری ڈھونڈھ لی جبکہ مدرسے کی طالبات نے ایک باآسانی حاصل ہونے والی فتح کی خوشی منائی۔ اس کامیابی سے شہ پا کر دونوں بھائیوں نے اسلام آباد کے مہنگے مساج پارلرز کا رخ کیا۔ یہ سب پارلر قحبہ خانے نہیں تھے اور کچھ پارلرز تھے جہاں چینی شہری بطور ملازم کام کرتے تھے۔ چھ چینی خواتین کو اغوا کر کے مسجد پہنچا دیا گیا۔ چینی سفیر اس واقعہ پر سخت نالاں ہوئے۔ سفیر نے صدر ہوجن تاؤ کو مطلع کیا جو سفیر سے بھی زیادہ برہم ہوئے۔ بیجنگ نے واضح انداز میں کہا کہ وہ اپنے شہریوں کی بلا تاخیر رہائی چاہتا ہے۔ حکومتی معاملہ باز مسجد پہنچے۔ انہوں نے پاک چین تعلقات کی اہمیت کا واسطہ دیا اور ان خواتین کو رہائی مل سکی۔ مساج کرنے والوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ صرف مرد ہی مردوں کو مساج کریں گے۔ عزت بہر حال بچ گئی چاہے یہ معاہدہ شریعت کے خلاف سہی کہ شریعت کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزا موت ہے۔ لبرل پریس نے ان بھائیوں کی اس مہم کو پاکستان کی طالبانائزیشن قرار دیا جس سے یہ دونوں بھائی سیخ پا ہوئے۔ ’رُڈی گیولانی نے بھی تو نیو یارک کا مئیر بننے پر چکلے بند کر دئے تھے‘، مولانا رشید نے کہا: ’کیا وہ بھی طالبانائزیشن تھی؟‘۔ مولانا رشید زندہ ہوتے تونیو یارک کے گورنر، ایلیٹ سپٹزر، کے ’استعفیٰ‘ کی مکمل حمایت کرتے۔ چینی خواتین کے اغوا پر شرمندہ اور قہر آلود جنرل مشرف نے اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان میں سعودی سفیر، علی سعید اود اسیری نے مسجد کا دورہ کیا اور دونوں بھائیوں سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کی۔ انہوں نے سفیر کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور سفیر کو بتایا کہ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی سعودی قوانین کا اطلاق ہونا چاہئے۔ کیا واقعی سفیر نے رضامندی کا اظہار کیا؟ سفیر نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا لہٰذا ان کا جواب ریکارڈ پر نہیں آ سکا۔
جب سعودی سفیر کی صلح کے لئے کوشش رنگ نہ لائی تو پلان بی پر کام شروع ہوا۔ تین جولائی کو رینجرز نے مسجد کی طرف جانے والی سڑک کے گرد خاردار باڑھ لگا نا شروع کی۔ مدرسے کے طالب علموں نے گولی چلا دی جس میں رینجرز کا ایک اہل کار ہلاک ہو گیا اور لگے ہاتھوں قریب ہی موجود وزارتِ ماحولیات کی عمارت کو بھی آگ لگا دی۔ اسی رات سکیورٹی دستوں نے آنسو گیس اور مشین گنوں سے جواب دیا۔ اگلے روز حکومت نے اس علاقے میں کر فیو لگا دیا اور ہفتے بھر کے لئے محاصرہ شروع ہو گیا جس کے مناظر دنیا بھر کے ٹی وی نیٹ ورکس پر دکھائے جانے لگے۔ شہرت کے متمنی مولانا رشید کو یقینا اس بات سے مسرت حاصل ہوئی ہو گی۔ ان بھائیوں کا خیال تھا کہ عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنا کر انکی بچت ہو جائے گی۔ کچھ کو البتہ رہا کر دیا گیا جبکہ مولانا عزیز کو برقعے میں فرار ہوتے ہوئے گرفتار کر لیاگیا پھر ہفتے بعد خاموشی سے رہا کر کے اپنے گاؤں جانے کی اجازت دیدی گئی۔
دس جولائی کو پیرا ٹروپس نے مسجد کے کمپلیکس پر ہلہ بول دیا۔ مولانا رشید اور سو دیگر ساتھی اس حملے میں مارے گئے۔ فوجی بھی ہلاک ہوئے جبکہ چالیس سے زائد زخمی ہوئے۔ بے شمار تھانوں پر حملے ہوئے اور قبائلی علاقوں سے شدید احتجاج سامنے آیا۔ طالبان کے معروف حامی مولانا فقیر محمد نے ہزاروں مسلح قبائلیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ہماری اللہ سے دعا ہے کہ مشرف تباہ و برباد ہو جائے۔ ہم لال مسجد میں ہونے والے مظالم کا بدلہ لیں گے‘۔ انہی خیالات کو اسامہ بن لادن نے بھی دہرایا اور مشرف کو ’کافر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مشرف کو ہٹانا ہر مسلمان پر واجب ہے‘۔
ستمبر 2007ء میں میں پاکستان میں تھا جب خود کش حملہ آور مولانا رشید کا بدلہ لینے کے لئے فوجی ٹھکانوں پرحملے کر رہے تھے۔ آئی ایس آئی کے ملازمین کو لے جانے والی ایک بس بھی ایسے ہی ایک حملے کا نشانہ بنی۔ باقی ملک میں البتہ رد عمل ساکت ہی رہا۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے نے، جس کی سرحد میں حکومت اور بلوچستان کی مخلوط حکومت میں حصہ تھا، کچھ گھناؤنے بیانات جاری کئے مگر عملاً کچھ نہیں کیا۔ اگلے روز صوبائی دارلحکومت پشاور میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں فقط ایک ہزار لوگ شریک ہوئے۔ یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا اور یہاں بھی زیادہ جوش و خروش نہیں تھا۔ شہیدوں کو کسی اعلیٰ و ارفع رتبے پر فائز نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کی بحالی کے لئے جاری تحریک سے فرق بالکل واضح تھا۔ تین ہفتے بعد پنجاب کے شہر قصور میں ایک لاکھ سے زائد لو گ 17 ویں صدی کے معر وف شاعر بابا بلّھے شاہ کا 250 واں عرس منانے جمع ہوئے جس کا تعلق صوفیوں کی معروف لڑی سے تھا۔ بابا بلّھے شاہ نے ہر قسم کے کٹر پن سے پرہیز کیا، تشکیک کو فروغ دیا اور منظم مذہب کی مخالفت کی۔ بلّھے شاہ کے نزدیک ملاّبھونکتا ہوا کتا اور کائیں کائیں کرتا ہوا کوّا ہے۔ جب کسی اہل ایمان نے بلّھے کے مسلک بارے پوچھا تو بلّھے نے جواب دیا:
بلھیا کیہ جاناں میں کون؟
نہ میں مومن وچ مسییتاں
نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ نہ فرعون
یہ اور ایسی بہت سی نظموں کا پاکستان بھرمیں پڑھا اور گایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے اکثر حصوں میں جہادی مقبول نہیں ہیں۔ حکومت بھی مقبول نہیں ہے۔ لال مسجد نے ایسے بہت سے سوالوں کو جنم دیا جن کا ہنوز جواب نہیں مل سکا۔ حکومت نے جنوری میں کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا کہ جب دھرم وادی دستوں نے چھاپے مارنا شروع کئے تھے؟ ملاؤں نے حکومت کی توجہ حاصل کئے بغیر اتنا زیادہ اسلحہ کیسے جمع کر لیا؟ کیا آئی ایس آئی کو معلوم تھا کہ مسجد میں اس قدر اسلحہ موجود تھا؟ اگر ایسا تھا تو وہ خاموش کیوں رہے؟ مولانا عزیز کو رہائی دے کر خاموشی سے اپنے گاؤں لوٹ جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟
مندرجہ بالا اقتباس طارق علی کی کتاب ’دی ڈوئیل‘ (2008ء) سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ فاروق سلہریا نے ’پرزے ہوئے پیماں کتنے‘کے عنوان سے کیا۔