تاریخ

آج ن م راشد کی 111 ویں سالگرہ ہے

علی مدیح ہاشمی

وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
حسن کوزہ گر اب کہاں ہے؟
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خدا وند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!

(حسن کوزہ گر)

فیض احمد فیض سے ملک الشعرا کا لقب پانے والا شاعر 9 اکتوبر 1975ء میں لندن کے جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے بنسٹیڈ میں دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا۔ نذر محمد ’ن م‘ راشد کی جب وفات ہوئی تو ان کی عمر پینسٹھ برس تھی۔ تند مزاج انفرادیت کے باعث انہوں نے روایتی مسلم تدفین کے بجائے اپنی چتا جلانے کی وصیت کی، گو ان کے قریبی دوستوں کی طرف سے کچھ اضطرابی کیفیت کے ساتھ اس خواہش کا احترام کیا گیا۔ ان کے دوست اور ساتھی شاعر ساقی فاروقی نے ان کی موت کے بارے میں لکھا ”ہر کوئی صدمے میں تھا، لیکن مذہبی جذبات کا مجروح ہونا موت کے صدمے پر غالب آ گیا“۔ (راشد کی موت کے فوری بعد کی صورتحال کی تفصیلات (1985ء) میں شائع اردو اسٹڈیز کے سالانہ نمبر میں ساقی فاروقی کے تعزیتی مضمون”حسن کوزہ گر“ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں)۔

ایک مضطرب نقاد نے لکھا: ”راشد کی تدفین کے بجائے ان کی میت کو جلانے کا معاملہ ایک تکلیف دہ سانحہ ہے جو راشد کی اہلیہ شیلا انجلینی اور بیٹے شہریار راشدکے مطابق ایک زبانی وصیت تھی، بلاشبہ راشد اپنی زندگی کے آخر تک ایک پختہ اعتقاد مسلمان رہے، جن لوگوں نے ان کی تدفین کے عمل کو تبدیل کیا، وہ کبھی اس کا کوئی تحریری ثبوت یا شخصی تصدیق فراہم نہ کرسکے“۔

راشد کو ’نقادوں‘ کی حیرت زدہ چیخوں کی کیا پرواہ ہو سکتی تھی۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے فنکار کے تخلیقی کام کو ’آزادی کی شرائط کے تحت‘ دیکھا۔ مختلف حلقوں کی خواہشات کے تابع ادب تخلیق کرنا انہیں بہت ناگوار تھا، چاہے اس خواہش کا اظہار ریاستی کرداروں کی طرف سے ہو یا نظریاتی پنڈتوں کی جانب سے، یہ ان کے نزدیک بہت بڑی ناانصافی تھی۔ اسی طرح جب انہوں نے اپنی موت کے بعد خود کو جلانے کا کہا تو ایسا ہی تھا جیسے انہوں نے…ایک معجزہ برپا کیا…کیوں کہ جب انسان آزادی کیلئے ساری زندگی زنجیریں توڑتا رہا ہو، تو پھر اس سلسلہ کی آخری کڑی کیوں باقی رہے؟

راشد یکم اگست 1910ء میں گوجرانوالہ کے نزدیک اکال گڑھ (جسے اب علی پور چٹھہ کہا جاتا ہے) میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ انہوں نے 1932ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ماسٹر کیا، 1935ء میں ملتان میں کمشنر آفس میں ریکارڈ کیپر کی حیثیت سے پہلی ملازمت حاصل کی۔ 1937ء میں کچھ عرصہ کیلئے علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک میں شامل ہوئے۔ 1939ء میں وہ دہلی منتقل ہوگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کا حصہ بن کر انہوں نے پطرس بخاری، سعادت حسن منٹو اور دیگر قد آور ادبی شخصیات کی صحبت میں وقت گزارا۔ وہ 1943ء سے 1947ء تک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کپتان رہے اور اس عرصے میں بغداد، تہران، بصرہ، قاہرہ، یروشلم اور کولمبو تک کا سفر کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ 1950ء میں انہیں نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔ وہ 1973ء تک اقوام متحدہ سے وابستہ رہے، پاکستان سے باہر انہوں نے طویل عرصہ گزارا، جس سے بعض لوگوں کے خیال میں ان کی شاعری اور ان کے نقطہ نظر پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

انہوں نے دو بار شادی کی۔ پہلی بیوی صفیہ سے چھ بچے ہوئے، 1961ء میں صفیہ کی وفات ہو گئی۔ 1963ء میں قیام لندن کے دوران شیلا انجلینی سے دوسری شادی کی اور ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ راشد نے عراق، ایران (اپنے دوسرے شعری مجموعہ کا نام ”ایران میں اجنبی“ رکھا)، مصر، فلسطین، سیلون، امریکہ، انڈونیشیا، اٹلی اور متعدد ممالک میں طویل عرصہ گزارا۔

1975ء میں فیض احمد فیض نے راشد کی موت کے فوراً بعد کی گئی تقریر میں اعتراف کیا کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں راشدنے انہیں شاعری کے امکانات سے روشناس کرایا اور اپنے انداز سے متاثر کیا۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہندی و اردو زبان کے اسکالر شان پیو لکھتے ہیں کہ فیض کے نزدیک 1952ء میں اقوام متحدہ میں شامل ہونے کے باعث راشد کا پاکستان سے باہر طویل وقت گزارانا نہ صرف ادبی حلقوں بلکہ خود راشد کیلئے بھی نقصان دہ رہا۔

فیض کا کہنا ہے کہ ”جب آدمی بیرون ملک ہوتا ہے تو اس کی ذات معاشرے (”انجمن“) کے ساتھ پیوست نہیں رہ سکتی، کیوں کہ ایک طرح سے اس کی اپنی ذات الگ ملک بن جاتی ہے“۔ اس طرح کا شاعر معاشرے پر توجہ دینے کے بجائے’اپنے ہی اندر“ (دروں بینی) دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ فیض کے مطابق راشد کی جہاں دیدگی نے اسے اپنے لوگوں کے مخصوص مسائل سے بے بہرہ کر دیا تھا۔ ان کی توجہ مخصوص زاویہ نگاہ کے بغیر وجودی انداز میں اپنی پرسراریت اور انسان کے ’بین الاقوامی مسائل‘ پر مرکوز رہی۔

راشد اس سے قبل اس طرح کی تنقید کا جواب یہ کہہ کر دے چکے تھے کہ انہوں نے بیرون ملک سفر صرف اس وجہ سے کیا کہ انہیں ملازمت کی ضرورت تھی۔

راشد اور ان کے آزاد خیال ہم عصر ثنا اللہ ڈار ’میرا جی‘ کو اکثر ’جدید‘ شاعری خاص طور پر ”آزاد نظم“ کے بانیوں کی حیثیت سے سراہا جاتا ہے (اور کبھی کبھار ملامت بھی کی جاتی ہے) اس حوالے سے 1941ء اس موضوع پر میں ہونے والی گفتگو سے راشد کے نظریات کا جائزہ لیتے ہیں:

”آزاد نظم“ کچھ عرصہ قبل اردو شاعری میں داخل ہوئی۔ ابتدائی کوششیں مولوی عبدالحلیم شرر اور مولوی اسماعیل میرٹھی نے کیں۔ انہوں نے انگریزی شاعری کی طرز پر کچھ تجرباتی آزاد نظمیں لکھیں۔ تاہم وہ اپنے اخلاقی اور تاریخی تصورات کی وجہ سے کبھی بھی ہماری شاعری میں کوئی نئی تحریک متعارف نہیں کرا سکے۔ کچھ برسوں سے آزاد نظم نہ صرف تکنیکی تبدیلی کے ساتھ بلکہ نئے موضوعات اور نئے تصورات کے ساتھ ایک نئی شکل میں نئے انداز سے لکھی گئی، جو شاعری میں ایک نئے دور کو جنم دے رہی ہے…اس میں کوئی شک نہیں، ردیف قافیہ اور میٹر چھوڑ کر محض بے ربط اور بے جان شاعری کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے۔ تاہم اگر ہم میٹر ترک کردیں اور اس کے باوجود نظم خوش کن ہو،نئے خیالات کی عکاسی ہو اور اظہار کے نئے پیرایے وجود میں آئیں تو یہ ایک ادبی کارنامے کی بنیاد ہو گی۔

اگرچہ راشد کی مقبول اور عام فہم نظمیں بھی بہت سریلی ہیں (جیسے ”زندگی سے ڈرتے ہو“ یا ”میرے بھی ہیں کچھ خواب“) لیکن ان کی ثقیل نظموں میں بھی ’اظہار کے نئے در‘ واضح طور پر وا ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس حوالے سے ان کی مختصر مگر تنقیدی حدت سے بھرپور نظم’سبا ویراں‘ دیکھئے:

سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبار بے پایاں!
گیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالی
ہوائیں تشنہ باراں،
طیور اس دشت کے منقار زیر پر
تو سرمہ ور گلو انساں

(ایران میں اجنبی)

ان جیسی نظموں کے بارے میں راشدکہتے ہیں: ”تکنیک ان نظموں کا کوئی اہم جز نہیں ہے۔ ان نظموں کا مقصد یہ بھی نہیں کہ وہ کسی خاص قسم کی جدیدیت کی عکاسی کریں بلکہ اظہار کے نئے پیرائے، نئے خیالات اور نئے تصورات کی عکاسی کرنا ان کا مقصد ضرور ہے۔ آزاد نظم کسی منطق کے بغیر محض ذہنی حرکیات کا نام نہیں“۔

راشد نے میرا جی کے ساتھ مل کر سوشلسٹ نظریات سے متاثرہ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کے بالمقابل حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی (جس کے ہفتہ وار اجلاس اب بھی باقاعدگی سے لاہور میں ہوتے ہیں) اگرچہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے جنگ عظیم دوم سے قبل اور بعد اور پھر تقسیم ہند کے پرفتن دور میں بڑی اہمیت حاصل کر لی تھی، لیکن راشد کسی بھی نظریے کی ترویج کیلئے لکھاری کی آزادی کی مکمل معطلی کے خلاف رہے۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی”حکم برداری“ (جیسے انہوں نے دیکھا تھا) اور ان کے”شاعری کے یک جہتی نظریاتی مقصد“ (سوشلسٹ نظریات کی تشہیر) کے سخت ناقد رہے۔

ان کے ’ترقی پسند‘ نہ ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہ تھا کہ وہ روایت پرست تھے لیکن جیسا ان کا مشاہدہ رہا، ان کا کام بطور شاعر درپیش مسائل خاص طور پر غیرملکی تسلط، مذہب پرستی، اخلاقی دباؤکو اجاگر کرنے کے لئے نئی شاعری کا تجربہ کرنا تھا۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسندوں نے سماجی تبدیلی کیلئے اجتماعی جدوجہد پرتوجہ مرکوز کی، جب کہ راشد نے انفرادی تجربے کو ترجیح دی۔

اس طرح کے الزامات اس وقت کے ایک اور شاندار فنکار سعادت حسن منٹو پر بھی لگائے گئے۔ ان میں شہوت پرستی اور فحش نگاری کے الزامات بھی شامل تھے۔

راشد اپنے ہم عصر میرا جی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”ہمارے زمانے کا سب سے قابل ذکر شاعر جسے بائیں بازو نے سراسر مسترد کردیا اور اس کے ساتھ وہ تمام مذموم خصوصیات چسپاں کر دیں جو اس کے اندر موجود نہیں تھیں: قنوطیت، شکست خوردگی، شہوانیت، فحاشی اور ابہام پسندی وغیرہ“۔ اس میں سے کچھ راشد کے کام پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوسکتی ہے۔

راشد نے اپنے بارے میں کہا: ”چند نقادوں نے میری شاعری میں ’فحاشی‘کے عناصر ڈھونڈ لئے ہیں۔ فحاشی تخلیق کار کے بجائے اخلاقی معلم یا جج کا مسئلہ ہے“۔

یہاں راشد نے اس ٹھوس حقیقت کی طرف اشارا کیا ہے، جس کی منٹو بھی نشاندہی کر چکا ہے، جو ان الزامات کا عادی ہو گیا تھا، اس کا کہنا تھا: ”زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔ میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی“۔

تاہم راشد نے اعتراف کیا کہ شاید ان کی کچھ نظموں (مثال کے طور پر انہوں نے ”انتقام“ کا نام لیا) کو بعض لوگ ’اخلاقی یا قانونی طور پر قابل مذمت‘ قرار دے سکتے ہیں۔ حالانکہ بقول ان کے”میں اپنی نظموں میں ایک مرد اور عورت کے مابین فطری پیار کی بات کرتا ہوں اور ایسا کرنے کے لیے میں کبھی کبھار جنسیت کی طرف مائل امیجری کا استعمال کرتا ہوں“۔ یہ ان کی نظم”دریچے کی قریب“ میں بالکل واضح ہے:

جاگ اے شمع شبستان وصال
محفل خواب کے اس فرش طرب ناک سے جاگ
لذت شب سے ترا جسم ابھی چور سہی
آ مری جان مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوار سحر چومتے ہیں
مسجد شہر کے میناروں کو

اس کے بعد نظم اچانک راشد کا مخصوص انداز اپنا لیتی ہے، جو فرائیڈین فری ایسوسی ایشن تکنیک اور واضح و خوفناک امیجز کے امتزاج پر مبنی ہے:

اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اپنے بے کار خدا کی مانند
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں
بے پناہ سیل کے مانند رواں
جیسے جنات بیابانوں میں
مشعلیں لے کے سر شام نکل آتے ہیں
ان میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں

اس کے علاوہ راشد نے روایتی نظریات کو تو یکسر مسترد کردیا تھا تاہم سیاست اور سماج سے متعلق ان کے خیالات انتہائی واضح تھے جن کا اظہار انہوں نے بھرپور انداز میں اپنی نثر میں کیا۔ روزنامہ ’نیا دور‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر جمیل جالبی کو ’پاکستان کی شناخت‘ کے عنوان سے ایک طویل خط میں انہوں نے ایک ’مسلم‘ ملک کی حیثیت سے پاکستان کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا، ان کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے عارضی نعرہ پیش کیا گیا جسے مستقل جگہ نہیں دی جا سکتی اور پاکستان کے مستقبل کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا، جب اس نعرے کا سیاسی مقصد پورا ہو گیا تھا تو اسے تاریخ کے ساتھ منسلک کر دینا چاہئے تھا۔

اس کے بجائے انہوں نے پاکستانی ’روح‘ کے چار ستونوں کی نشاندہی کی: مقامی روایات اور مختلف جغرافیائی ثقافتی رسم و رواج، جن کے امتزاج سے ”پاکستان“ وجودمیں آیا۔ اخلاقی اقدار جن پر انہوں نے عرب ثقافت اور اسلام کے اثر و رسوخ کو تسلیم کیا۔ جمالیاتی اقدار جو ہمارے ہاں ایران سے آئیں اور چوتھا ستون (جسے ہم بھول جاتے ہیں اور بعض اوقات سب سے زیادہ اس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں) تنظیمی اور فنی مہارت، مادی اور فکری نظریات جو ہم نے مغرب سے مستعار لے رکھے ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ ایسے ہنرمند اور توانائی سے بھرپور انسان نے شاعری کے صرف چار مجموعے دیئے، اس کی وجہ شاید ان کی پیشہ ورانہ اور ذاتی مصروفیات تھیں۔ تاہم جو کام انہوں نے کیا ہے وہ آج بھی اتنا ہی وسیع ہے جتنا پچاس سال پہلے تھا۔

’آخری زنجیر توڑنے‘ کے اپنے آخری فیصلے کے بارے میں، یہاں ایک بار پھر ساقی فاروقی کے الفاظ دہراتے ہیں: ”جلد ہی اعضا نے کھیلنا چھوڑ دیا اور تابوت کو پردے سے ڈھانپ دیا گیا، ہال کا دروازہ کھلا اور اس طرح راشد صاحب کو شعلوں کاغسل دے دیا گیا۔ اس کے اپنے الفاظ میں:

آگ آزادی اور خوشی ہے
آگ تخلیق اور نمو ہے
آگ وہ پاکیزگی ہے جو سارے گناہوں کو دھو ڈالتی ہے
انسان کی پہلی سانس کی طرح آگ بھی عظیم عمل ہے“۔

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔