طارق علی
مندرجہ ذیل اقتباس طارق علی کی کتاب ’دی ڈوئیل‘ (2008ء) سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ فاروق سلہریا نے ’پرزے ہوئے پیماں کتنے‘ کے عنوان سے کیا۔
دریں اثنا ایوب کی شرمناک رخصتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جدوجہد سڑکوں پر ہونے کی بجائے انتخابی اکھاڑے میں پہنچ گئی۔ دو سیاسی جماعتیں منظر پر حاوی تھیں۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے 1968-69ء کی تحریک کے چند ذہین ترین اور جری سیاسی رہنما ا ور کارکن اپنے اندر سمو لئے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ملک میں موجود بے مہار جوش و خروش زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کا کوئی سیاسی نتیجہ نکلنا چاہئے۔ اس کے لئے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہے کہ جو جماعتیں موجود ہیں وہ یا تو غیر متعلقہ ہیں یا ایک بڑا مقصد حاصل کرنے سے قاصر۔ بھٹو نے بیج بویا تھا لہٰذا فصل بھی انہی کے حصے میں آنی تھی۔ مشرقی حصے میں ماؤنواز بائیں بازوکا بڑا حصہ، جس نے ایوب کی چین دوستی کی وجہ سے ایوب کی حمایت کی تھی، ڈھیر ہو گیا۔
ذرائع ابلاغ میں مضبوط مگر سڑکوں پر کمزور، روایتی ماسکو نواز بائیں بازو کی کمزوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی لیگ کو میدان خالی ملا۔ اس جماعت نے بنگال کی خود مختاری کا ہمیشہ دفاع کیا اور تحریک کو اس نعرے کی مدد سے جیت لیا۔ عوامی لیگ بنگالی قوم پرستی کی آواز بن گئی اور یہ جماعت سیاسی لحاظ سے اس حملے کے لئے تیار تھی جس کی منصوبہ بندی اسلام آباد میں ہو رہی تھی۔ مشرقی بنگال میں جاگیردار اور تاجر طبقہ زیادہ تر ہندو تھا۔ 1947ء میں یہ لوگ اپنا کاروبار اور زمینیں چھوڑ کر مغربی بنگال ہجرت کر گئے جو بھارت کا حصہ تھا اور ہے۔ اس خلا کو یو پی سے آئے بہاری مسلمان مہاجروں اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر بنگالی سیٹھوں نے پُر کیا۔ تقسیم کے فوری بعد مشرقی بنگال کا استحصال شروع ہو گیا اور مغربی پاکستان سالانہ تین ارب روپے بنگال سے کماتا۔ زرِ مبادلہ کا اہم ترین ذریعہ پٹ سن تھا۔ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی یہ جنس پاکستانی برآمدات کا پچاس فیصد تھی۔ یہ سرمایہ مغربی پاکستان میں اصراف اور سٹے بازی کے لئے استعمال ہوتا۔ مرکزی حکومت ترقیاتی کاموں کے لئے جو رقم مختص کرتی، اس کا جائزہ امتیازی سلو ک کے حوالے سے خاصا دلچسپ ہے۔ 1948-51ء کے عرصے میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں 1.13 ارب روپے مختص کئے گئے۔ اس رقم کا صرف بائیس فیصدمشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ 1947-69ء کے عرصے میں جو وسائل مشرقی پاکستان منتقل کئے گئے ان کی مالیت 2.6 ارب ڈالر تھی۔
مغربی پاکستان کی معیشت کا مشرقی پاکستان پر زبردست انحصار تھا۔ ایک تو وہ سرمایہ کاری کے لئے اہم تھی مگر سب سے اہم بات یہ کہ وہ ایک مفتوحہ منڈی تھی اور سبسڈیز کا وسیلہ۔ عوامی لیگ کے چھ نکات سیاسی و معاشی خود مختاری کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں اور فوج و نوکرشاہی میں موجود ان کے حواریوں کے کاروباری مفادات کے لئے شدید خطرہ تھے۔ چھ نکات یہ تھے:
۱۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پارلیمانی نوعیت کا وفاقی نظامِ حکومت
۲۔ وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور خارجہ کے امور ہوں گے۔باقی تمام امور وفاق تشکیل دینے والی ریاستوں کے پاس ہوں گے
۳۔ یا توملک کے دونوں حصوں میں دو کرنسیاں ہوں جو آزادانہ قابلِ تبدیل ہوں یا پورے ملک میں ایک ہی کرنسی ہو۔ اس صورت میں ایسے آئینی اقدامات کئے جائیں کہ سرمایہ مشرقی حصے سے مغربی حصے میں نہ پہنچ پائے
۴۔ ٹیکس اور ریونیو کا اختیار وفاق کی ریاستوں کے پاس ہوگا نہ کہ مرکزی حکومت کے پاس
۵۔ ملک کے دونوں حصوں کے لئے،ان حصوں کی حکومتوں کی نگرانی میں، زرِ مبادلہ کے لئے علیحدہ اکاونٹس
۶۔ مشرقی پاکستان کے لئے ملیشیا یا پیرا ملٹری فورس کا قیام
یہ نکات ایک جانب تو اس استحصال کا جواب تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے دوسری طرف یہ نئے آئینی اقدامات کے ذریعے پاکستان کے اتحاد کو قائم رکھنے کی سنجیدہ کوشش تھی۔ جب غیر ملکی نامہ نگار شیخ مجیب کے مطالبات کو ”غیر معقول“ قرار دیتے تو وہ چِڑ کر کہتے: ”کیا مغربی پاکستان کو سمجھ نہیں آتا کہ مشرقی پاکستان کو کمیونزم سے صرف میں ہی محفوظ رکھ سکتا ہوں؟ اگر انہوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا تو طاقت میرے ہاتھ سے نکل جائے گی میرے نام پر نکسل باڑی (ماؤ نواز) مداخلت کریں گے۔ اگر میں نے زیادہ چھوٹ دی تو میری اتھارٹی جاتی رہے گی۔ میں بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہوں“۔
چھ نکات آرزو مند بنگالی بورژوازی کے کردار کی عکاسی کرتے تھے۔ ان نکات سے پتہ چلتا ہے کہ بنگالی بورژوازی علاقائی ریاستی ڈھانچہ چاہتی تھی تاکہ سرمایہ دارانہ لوٹ میں برابر کا حصہ وصول کر سکے لیکن اسی وجہ سے تو مغربی پاکستان کے بالا طبقے ان کے خلاف تھے۔ پاکستانی فوج خلقی طور پر بنگال کی سول حکومت برداشت کرنے پر تیار نہ تھی کیونکہ خطرہ یہ تھا کہ ایسی حکومت اس کثیر فوجی ڈھانچے کا حجم کم کر سکتی ہے جو 1958ء میں ایوب کے حکومت پر قبضے کے بعد اسلام آباد میں موجود طاقت کا جزو لاینفک بن چکا تھا۔ سٹیٹس کو قائم رکھنے میں فوجی افسر طبقے کا کس قدر گہرا مفاد تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقدیمی دہائی (1958-68ء) کے دوران فوج ملکی بجٹ کا ساٹھ فیصد ہڑپ کر گئی تھی۔ صرف مالی سال 1970ء کے دوران، 625 ملین ڈالر فوج کیلئے مختص کئے گئے۔ مغربی پاکستان کے کم نظر سیاستدان جنہیں یہ سب نظر نہیں آ رہا تھا جلد ہی خود بھی اسی مشینری کا شکار بن گئے کہ فوج سنجیدگی کے ساتھ کسی ایسی حکومت کے حق میں نہیں جو فوجی اور سماجی اخراجات کے بیچ فرق بارے معترض ہو۔
عوامی لیگ کے سیاستدانوں کو اس بات پر سراہنا پڑے گاکہ انہوں نے مسلسل بڑے فوجی اخراجات پر اعتراض کیا جو ایک ایسی فوجی مشینری پر کئے جا رہے تھے جس میں بنگالی نہ ہونے کے برابر تھے، ایک ایسا فوجی ڈھانچہ جس میں اوپر سے لیکر نیچے تک بنگالیوں کے خلاف نسلی اور مذہبی تعصب پایا جاتا تھا، ایک ایسی فوج جس میں بنگالیوں کو روایتی طور پر کالا، کمزور اور ہندومت سے متاثر سمجھا جاتا تھا۔ ادھر پاکستان کا کاروباری طبقہ اپنے مفاد کی خاطر چھ نکات پر مزاحمت کر رہا تھا۔ مغرب کے کاروباری مفادات کے مطابق بنگال سرمایہ کاری کے لئے موزوں نہیں رہا تھا۔ بنگال کی حیثیت ایک مفتوحہ منڈی اور زرِ مبادلہ کمانے کی وجہ سے اہمیت کی حامل تھی۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں مغربی پاکستان کی برآمدات کا چالیس سے پچاس فیصد مشرقی پاکستان کو اجارہ دارانہ قیمتوں پر درآمد کرنا پڑتا تھا۔ مغربی پاکستان کی سرمایہ داری اپنی مہنگی مینوفیکچرنگ مشرقی پاکستان نہ بھیجتی تو کہاں بھیجتی؟
عوامی لیگ نے دو وجوہات کی بنا پر مشرقی بنگال میں زبردست سیاسی حمایت حاصل کی۔ اؤل، اس نے قومی سوال کی اہمیت کو سمجھا اور دیکھا کہ مشرقی پاکستان کی حیثیت ایک نیم نوآبادی کی سی ہے۔ دوم، بائیں بازو کی جماعتیں جو ایوب کی چین ”دوستی“ کے باعث آمریت کی حمایت کرتی ر ہیں تھیں، ناکام ہو گئیں۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا ماؤ نواز دھڑا، چینی پشت پناہی کے ساتھ، بضد تھا کہ ایوب آمریت میں ”بعض سامراج مخالف خصوصیات“ پائی جاتی ہیں لہٰذا بعض صورتوں میں بورژوا جمہوریت سے بہتر ہے۔ یوں عوامی لیگ پورے صوبے میں خود کو حقیقی حزبِ اختلاف کے طور پر پیش کر سکتی تھی۔ وہ چھ نکات کے حق میں مسلسل مہم چلاتی رہی، آزادانہ انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی اور ایوب کے خلاف جلسے منظم کرتی رہی۔ مجیب الرحمن سمیت اس کے بعض رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا جس سے عوامی لیگ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ جب ایوب مخالف تحریک نے آمریت کا خاتمہ کر دیا اور اس کی جگہ یحییٰ جنتا نے لے لی تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر عوامی لیگ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی۔
اس کے باوجود عوامی لیگ اپنی وراثت سے منکر نہیں ہو سکتی۔ فوج کے ایوب سے استعفیٰ لینے سے چند ہفتے قبل، عوامی لیگ نے جوش و خروش کے ساتھ ان ”آئینی“ مذاکرات میں حصہ لیا جو کسی سمجھوتے بازی کے لئے گول میز کانفرنس کی صورت ایوب خان نے کئے۔ عوامی لیگ نے عوامی تحریک کو ہوا دی، بنگالی مزدوروں و کسانوں کا غصہ بہ چشمِ خود دیکھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے پارلیمانی ماضی سے نتھی رہی۔
عوامی ابھار کو دبانے میں ناکام یحییٰ آمریت کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا وعدہ کرنا پڑا۔ حکومتی مشیروں کا خیال تھا وہ انتخابات کو توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ انہیں یقین تھا کہ دھاندلی کی دیرینہ ماہر نوکرشاہی متوقع نتائج یقینی بنا لے گی۔ نوکر شاہی کو مناسب وقت فراہم کرنے کے لئے انتخابات ملتوی کر دئے گئے اور اس التواء کے لئے 1970ء میں بنگال میں آنے والے سیلابوں کو بہانہ بنایا گیا جس میں لاکھوں جانیں چلی گئیں۔ فوج کی طرف سے سیلاب زدگان کو مناسب مدد کی عدم فراہمی نے بنگالیوں کے غصے کو مزید تیز کیا۔
جب مشرقی پاکستان کے مختلف ماؤ نواز دھڑوں نے انتخابات، جو آخرِ کار دسمبر 1970ء میں ہوئے، کا بائیکاٹ کر دیا تو عوامی لیگ کو میدان خالی ملا۔ مشرقی پاکستان کے لئے قومی اسمبلی کی مختص 169 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 167 جیت لیں۔ اسی طر ح صوبائی اسمبلی کی 343 نشستوں میں سے 291 عوامی لیگ کے حصے میں آئیں۔ اسے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو گئی اور وہ مرکزی حکومت تشکیل دینے کے قابل ہو گئی۔ مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ اس امکان کے پیشِ نظر سکتہ میں آ گئی۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ عوامی لیگ نے چھ نکات کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا تھا اور انتخابی بیان بازی میں وہ چھ نکات سے بھی آگے نکل گئی تھی، یہ بات واضح تھی کہ فوج قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونے دے گی۔ اس ضمن میں اگر ذولفقار علی بھٹو نے فوج کو رہنمائی نہیں تو کھل کر مدد ضرور دی۔ انہوں نے ایک ایسی حکومت قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اکثریتی جماعت نے تشکیل دی ہو۔
بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ملک کے مغربی حصے میں اکثریت حاصل ہوئی تھی اور انہیں چاہئے تھا کہ انتخابی فاتح سے معاملہ طے کریں۔ اس کے بر عکس بھٹو نے ترش روئی سے کام لیتے ہوئے اپنی جماعت کو مشرقی پاکستان کے دارلحکومت ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے کی ہدایت کی یوں فوج کو حملے کی تیاری کے لئے مناسب وقت مل گیا۔ بھٹو نے ”ادھر ہم، ادھر تم“ کا نعرہ تراشا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بھی فوج کی طرح شراکتِ اقتدار پر تیار نہیں۔ یوں اشتعال سے بچنا ممکن نہ رہا۔ بنگال میں عدم تعاون کا ماحول پیدا ہو گیا۔ ہڑتالوں کی لہر نے اس صوبے کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ فوجی چھاونیوں میں بھی تناؤ پایا جا رہا تھا مثلاً جب عوامی لیگ نے عدم تعاون کا فیصلہ کیا تو بنگالی بیرے، گھریلو ملازم اور دھوبی چھاونیوں میں آنا بند ہو گئے۔ سبزی منڈیوں میں سبزی فروشوں نے فوجیوں کو مال بیچنا بند کر دیا۔ جو گاڑیاں چھاونی جاتیں ان کے نمبر اگلے روز ”عوام“ اخبار میں شائع ہو جاتے۔ ایک وقت پر تو صورتحال اس قدر خراب تھی کہ فوجیوں کے لئے خوراک مغربی پاکستان سے بھیجنی پڑی۔
26 مارچ 1971ء کو ہونے والے حملے سے قبل بھی سینکڑوں بنگالی جانیں ضائع ہو چکی تھیں اور اس کی ذمہ داری مغربی پاکستان سے بھیجی گئی فوج پر ڈالی جا رہی تھی جسے ایک جابر فوج کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اس دور کے بعض جرنیل جو اس کام میں ملوث تھے، نے بعد ازاں لکھا کہ اپنے ہی لوگوں سے خوفزدہ شیخ مجیب نے فوج سے کہا تھا کہ تحریک کو دبا دیا جائے مگر حقیقت میں یہ ایک چال تھی جس نے انہیں اور بھی غیر مقبول بنا دیا۔ دھوکے باز بھی کیسے الجھے ہوئے جال بنتے ہیں۔
فوجی طاقت کے اوّل اوّل اندھے استعمال سے عوامی لیگ کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں اور اسے بنگالی عوام کو ایک طویل جدوجہد کے لئے تیار کر نا چاہئے تھا۔ عوامی لیگ نے اس کے باوجود ایسا نہیں کیا کہ عوام کی یہ زبردست خواہش تھی اور عوامی لیگ کے عوامی جلسوں میں پاکستان سے علیحدگی کے زبردست نعرے لگتے۔ بڑھتی ہوئی سیاسی بیداری کا اظہار ان زبردست جلسوں سے ہو رہا تھا جو ستر کے انتخابات سے قبل اور بعد میں پورے مشرقی بنگال کے اندر ہو رہے تھے۔ ہر مرحلے پر شہری اپنے پارلیمانی رہنماؤں کی نسبت ماضی سے زیادہ بہتر اسباق اخذ کر رہے تھے اور مشرقی پاکستان میں قائم نو آبادیاتی ریاست کے خاتمے کے لئے لڑنے پر تیار تھے۔ ہر موقع پر عوامی لیگ کی کلیسائی پارلیمان نوازی ان کے پاؤں کی بیڑی بن جاتی۔ عوامی تحریک اور اس کی اصلاح پسند قیادت کے مابین تنازع اس امر کے پیشِ نظر اور بھی المناک صورت اختیار کر رہا تھا کہ بائیں بازو کی جو تنظیمیں موجود تھیں وہ یا تو مقامی سطح پر موجود تھیں یا اپنا اعتبار کھو چکی تھیں لہٰذا وہ فیصلہ کن انداز میں تحریک پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھیں۔
شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے بھارت کے ممتاز اخباری تجزیہ نگار رنجیت رائے نے پاک ہند اسٹیبلشمنٹ سیاست میں موجود ایک مشترکہ عنصر کا بخوبی ذکر کیا: ”عوامی لیگ کی قیادت کئی طرح سے ہماری کانگرس کی قیادت ایسی ہے…ایک ایسی قیادت جو پر امن احتجاج کی پشت پناہی سے سمجھوتہ بازی کرنا چاہتی تھی اور آخر کار ہمارے نو آبادیاتی آقاؤں کے ساتھ سمجھوتے با زی میں کامیاب ہو گئی۔ ہماری آزادی برطانوی آقاؤں کے ساتھ سمجھوتے کا نتیجہ تھی۔ شیخ مجیب بھی اسلام آباد کے ساتھ ایسے ہی سمجھوتے کی امید رکھتے تھے۔ ہندوستان میں کانگرس کی طرح عوامی لیگ کے بھی بس میں نہیں تھا کہ ایسی کسی جنگ میں ملوث ہوتی جیسی جنگ حالات نے بنگلہ دیش کو لڑنے پر مجبور کر دیا۔“
یہ استغراق بلا شبہ لا شعوری طور پر برصغیر میں پاکستانی اور برطانوی کلونیل ازم میں ایک اہم فرق کی نشان دہی کرتا ہے۔
(جاری ہے)