لاہور (جدوجہد رپورٹ) ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ افغانستان میں پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان نے غزنی، مالستان اور قندھار میں پولیس اور سول ملازمین کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا ہے جبکہ غزنی، قندھار اور دیگرصوبوں میں افغان حکومت سے تعلق رکھنے والے زیر حراست فوجیوں، پولیس اہلکاران اور عام شہریوں کو بلا مقدمہ سزائے موت دی ہے۔
مختلف صوبوں کے رہائشیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ طالبان کی افواج ان علاقوں میں داخل ہوتی ہیں اور ان رہائشیوں کی شناخت کرتی ہیں جنہوں نے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کیلئے کام کیا ہو۔ وہ سابق پولیس اور فوجی اہلکاروں کو اپنے ساتھ رجسٹر کرنے کیلئے دستاویزات بھی حاصل کرتے ہیں اور یہ سب انکی حفاظت کی ضمانت پر کیا جاتا ہے۔ تاہم طالبان نے بعد میں ان میں سے کچھ لوگوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا اور ان کو سزائے موت دی گئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین کا کہنا ہے کہ ”کسی کو بھی حراست میں لینا، چاہے وہ شہری ہو یا جنگجو، جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی اور جنگی جرم ہے۔ اس قسم کے مظالم کا ارتکاب کرنے والے طالبان کمانڈر بھی جنگی جرائم کے ذمہ دار ہیں۔“
مالستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ وہ سکیورٹی فورسز کے اراکین اور سرکاری ملازم کی تلاش میں گھروں میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور انہوں نے لوگوں کو حوصلہ دیا کہ وہ ان لوگوں کو آگاہ کریں جو علاقے سے فرار ہو گئے ہیں تاکہ وہ اپنے گھروں کو واپس آ سکیں، لیکن عملی طور پرانہوں نے مختلف طریقے سے کام کیا، گھروں کی تلاشی بھی لیتے ہیں اور بعض معاملات میں سرکاری ملازمین کی تصاویر بھی دکھا کر ان کی جگہ کا پتہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے سکیورٹی فورسز کے کم از کم 19 اہلکاروں کو اپنے تحویل میں لیا جن میں متعدد شہری بھی شامل ہیں۔ طالبان جنگجوؤں نے ایک سابق ملیشیا کمانڈر عبدالحکیم شجاعی کے گھر کو بھی نذر آتش کیا جو امریکی فورسز کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ تاہم ہیومن رائٹس واچ اس بات کی تصدیق کرنے سے قاصر تھا کہ وہاں ہلاک ہونے والوں کی درست تعداد کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کو سپن بولدک قندھار سے 44 افراد کی فہرست ملی ہے جنہیں طالبان نے 16 جولائی کو مبینہ طور پر قتل کیا ہے۔ پولیس کمانڈر وحید اللہ نے طالبان کو معافی کا خط بھی تحریر کیا تھا لیکن طالبان انہیں گھر سے لے گئے اور 2 اگست کو پھانسی دے دی۔
غزنی میں طالبان نے گھر گھر تلاشی لی اور درجنوں رہائشیوں کو حراست میں لے لیا۔ تاہم ان افراد کی حیثیت یا ان کے ٹھکانے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔